دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایک مداری کا قصہ
No image احتشام الحق شامی۔یہ قصہ تو آپ نے بھی سن رکھا ہو گا کہ جب کسی سلطنت کے بادشاہ کا انتقال ہوا تو وہاں کے رواج اور دستور کے مطابق شہر میں پہلے داخل ہونے والے شخص کو جو بندر نچانے والا مداری تھا،اسے بادشاہ کے تخت پر بٹھا کر اور اسکے بندر کے خدمت پر سرکاری اہلکاروں کو مامور کر دیا گیا تھا۔ایک دن نئے بادشاہ یعنی مداری کے وزیروں نے اسے اطلاع دی کہ دشمن حملہ کرنے آ رہا ہے تو مداری بادشاہ نے کہا کہ آنے دو،اسی طرح تین چار مرتبہ اس بادشاہ کو متنبہ کیا گیا مگر اس کا ایک ہی جواب تھا کہ آنے دو دیکھ لیں گے۔
جب دشمن کے سپاہی شاہی محل کی دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہونے لگے اور مداری بادشاہ کو پھر سے اطلاع دی گئی تو اس نے اپنے بندر کو پہلے طلب کیا اور اپنی وہ چادر منگوائی جو وہ اوڑھ کر شہر میں داخل ہوا تھا اور تخت اٹھتے ہوا بولا کہ اب میرے واپس جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے،تم جانو اور تمہارا کام جانے۔اس پر وزیروں نے گھبرا کر کہا کہ حضور آپ ریاست کے بادشاہ سلامت ہیں اور ہمارے محافظ بھی،اس پر بادشاہ نے جواب دیا کہ”جو قوم ایک راہ چلتے بندر نچانے والے مداری کو اٹھا کر بادشاہ کے تخت پر بٹھا دے تو اس سلطنت کا تختہ ہونا یقینی ہوتا ہے،اس بھٹکی قوم کا یہی انجام ہونا چاہیئے تا کہ سبق حاصل کر سکے“،اور یہ کر وہ چلتا بنا۔
جس راہ چلتے مداری عمران نیازی کو تقریباً چھ سال قبل اس ملک کے چوبیس کروڑ عوام کے سروں پر مسلط کیا گیا تھا، اسے بھی مذکورہ بالا بادشاہ(مداری) کی طرح اقتدار سے فرار ہونے کا موقع دیا گیا تھا۔ بجائے اس کے کہ اس مداری سے اس ملکِ خداداد کی تباہی اور بربادی کی بابت اس کے ایک ایک پاپ کا حساب لیا جاتا۔
واپس کریں