دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اشٹبلشمنٹ،پالیسیاں اور تاریخ
No image احتشام الحق شامی۔ کسی بھی عالمی یا لوکل اشٹبلشمنٹ کی طاقت اور بقاء کا راز،مذہبی منافرت، فرقہ بندیوں، غربت، ناخواندگی، غیر جمہوری اور ہائبرڈ حکومتی نظام، مارشل لاء یا ”ایمرجنسی“ میں ہی پنہاں ہے۔ باالفاظِ دیگر تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ موجودہ ترقی اور تہذیب یافتہ یورپی ممالک پر ایک زمانے میں وہاں کی اشٹبلشمنٹ کا قبضہ تھا،یورپ کے پادریوں،سرمایہ داروں اور فوجی اشرافیہ نے مل کر عوام کو ایک عرصہ تک محکوم، ناخواندہ اورغربت میں رکھنے کے بندوبست کیئے تا کہ عوام کی توجہ ان کے اصل مسائل کی جانب نہ اٹھ سکے، جس میں جمہوری نظام،سول سپریمیسی یا شخصی آذادی سر فہرست تھی۔ جمہوری نظام کے حق میں سیاسی جدوجہد کرنے والے کئی یورپی نامور لیڈروں کا قتل کیا گیا، کئی ایک جیلوں میں مر کھپ گئے، مذہب کے نام پر منافرت اور افراتفری پھیلا کر عوام کو آپس میں لڑوایا گیا جس میں لاکھوں لوگ لقمہِ اجل بنے۔
ترقی اور تہذیب یافتہ بننے کے لیئے قربانیاں دینا پڑتی ہیں، اپنی جان و مال قربان کو کرنا پڑتا ہے لیکن ہم اپنی آنکھوں میں یہ خواب اور سہانے سپنے سجائے ہوئے ہیں کہ انقلاب کسی پلیٹ میں رکھا ہوا ملے گا جبکہ عمل کے بجائے سارے کا سارا دار ومدا ر وظائف اور دعاوں پر ہے۔
قیام پاکستان کے ٹھیک گیارہ برس بعد 1958 میں ملک میں پہلا مارشل لا لگا دیا گیا۔ قدرت اللہ شہاب، شہاب نامہ میں لکھتے ہیں کہ ’اکتوبر 1958 میں آئین منسوخ کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ اُس وقت پاکستان کسی غیر معمولی بیرونی خطرے سے دوچار نہیں تھا۔ اندرونی خطرہ صرف یہ تھا کہ اگر انتخابات ہو جاتے تو غالباً اسکندر مرزا کو کرسیِ صدارت سے ہاتھ دھونا پڑتے۔
ایم اے چودھری اپنی کتاب ’مارشل لا کا سیاسی انداز‘ میں لکھتے ہیں ’پاکستان کے منتخب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آئین کو تشکیل دینے کے سلسلے میں ایک دفعہ یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس ملک میں مارشل لا کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں گے۔ یہ وقت کی کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ مارشل لا ہی کی حکومت نے اُنھیں پھانسی دی اور دفن کیا۔
ڈاکٹر محمد اعظم چودھری نے اپنی کتاب ’پاکستان کا آئین‘ میں لکھا ’ایف ایس ایف کے قیام سے فوجی افسران چوکنے ہو گئے۔ اُنھیں پیشہ ورانہ روایتی فوج کی جگہ عوامی فوج کا وہ نعرہ یاد آنے لگا جو بھٹو نے بہت پہلے اپنی سیاسی تحریک کے دوران لگایا تھا۔ جنرل ضیا نے برسرِاقتدار آ کر اپنے اولین اقدامات کے تحت ایف ایس ایف کو توڑ دیا۔
اشٹبلشمنٹ جسے ملٹری اشٹبلشمنٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے نے ملکِ خداداد کی عمر کے تقریباً نصف حصے پر براہ راست حکومت کی ہے، جب کہ بقیہ عرصے میں تمام تر سیاسی قیادت پر غلبہ حاصل کیا ہے۔
پاکستانی اشٹبلشمنٹ کے بنیادی اصول اور اقدار بھارت کو ایک قدیم حریف اور اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھنے کی پالیسیاں ہیں۔ تنازعہ کشمیر، پاکستان کی اسلامائزیشن، پنجاب کو پاکستان کا مرکز بنائے رکھنا، غیر ریاستی عسکریت پسندوں کا تزویراتی استعمال اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک کے ساتھ اتحاد کی تشکیل وغیرہ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہماری اشٹبلشمنٹ کی بنائی ہوئی ماضی کی پالیسیوں میں کوئی بڑی مثبت تبدیلی رونماء ہوئی ہے یا پھر بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ خود کو نہ بدلنے کا عہد کیا ہوا ہے؟
واپس کریں