دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مضبوط دفاع اور معیشت
No image اگر آپ نے اپنے اور کارپوریٹ مفادات کے حصول اور تحفظ لیئے پاکستان جیسے غریب اور ترقی مذیر ملک کو ہر وقت نازک دوراہے پر دونوں زانوں کھڑا کر کے اور اسے بفر اسٹیٹ یا وار زون بنا کر جنگیں ہی لڑنے کا تہیہ کیا ہوا ہے تو یقینا پھر اس کے لیئے بھاری سرمایہ یعنی پیسوں کی بھی ضرورت ہو گی جس سے آپ اسلحہ اور دیگر جنگی ساز و سامان خرید سکیں۔یہ بھاری سرمایہ کہاں سے آئے گا؟یا بیرونی مالیاتی اداروں سے سود پر قرضہ لے کر یا پھر ملک میں بے تہاشہ مہنگائی اور ٹیکسوں میں اضافہ کر کے۔دونوں صورتوں میں آپ کی کسی ایسی منصوبہ بندی کا بوجھ غریب عوام پر ہی گرے گا ان ہی کی کھال اترے گی۔۔۔۔ لیکن آگے چلتے ہیں۔
"بھارت دشمنی" کا راگ لگاتے وقت ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ دنیا کی بڑی جمہوریت اور ہمسایہ ملک آبادی میں ہم سے تقریباً سات گنا اور رقبہ میں چار گنا بڑا ہے۔بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 800ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جو پاکستان سے تقریباً 25 گنا زیادہ ہیں،لہذا یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ زیادہ سرمائے کے زریعے اپنے ملک کے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیئے ہمارا دشمن زیادہ اہل ہے یا کہ ہم؟
جتنا بڑا ملک ہو گا، جس ملک کی معیشت جتنی زیادہ وسیع ہو گی وہاں کرپشن بھی زیادہ ہو گی۔ جنوبی ایشیاء میں سب سے زیادہ مالیاتی کرپشن میں بھارت ملوث پایا گیا ہے لیکن وہاں کی معاشی ترقی کی شرح نمو 10 فیصد سے بھی زائد ہے،دنیا بھر کی ملٹی نیشنل کمپنیاں وہاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ گویا ملکی ترقی میں واحد کرپشن ہی کوئی بڑی رکاوٹ یا وجہ نہیں۔ غریب افراد کی تعداد اگر بھارت میں زیادہ ہے تو امریکہ جیسے ملک میں بھی لوگ کھانے پینے کی اشیاء لوٹنے میں دریغ نہیں کرتے۔ امریکہ جیسے سپر پاور ملک کے فٹ پاتھوں پر راتیں گزارنے والے سینکڑوں افراد اور بھیک مانگنے والے کسی کی آنکھوں سے اوجھل نہیں۔ امریکہ بھی مالیاتی کرپشن میں بھارت،پاکستان یا کسی دوسرے ملک سے کم نہیں۔ ریاست خود کتنی مضبوط اور مستحکم ہے؟ یہ سب سے زیادہ اہم ہے۔
یہاں سعودی عرب اور کئی امیر ترین خلیجی ریاستوں کی مثال دینا ضروری ہو گا جہاں ان ممالک کی اپنی کوئی فوج یا پولیس نہیں لیکن ملکی دفاع کے لیئے دوسرے ممالک سے افرادی قوت کو منگوا کر مذکورہ مقصد کے لیئے بھرتی کیا گیا ہے۔مطلب کہنے کا یہ ہے کہ اگر ریاست مالی طور پر مستحکم ہو گی تو ہی ملکی دفاع مضبوط ہو سکے گا اور مضبوط ملکی دفاع لیئے خالی جذبہ یا نعرے نہیں بلکہ بھاری سرمایہ کی ضرورت ناگزیر ہے۔
اگر ملک چلانے والے پسِ پردہ اصل پالیسی ساز شروع دن سے ملکی معیشت کو مستحکم اور مضبوط کرنے والے اقدامات کے راستوں میں اپنی ٹانگیں نہ اڑاتے(جیسے سی پیک منصوبہ میں) تو آج معاشی ترقی کی شرحِ نمو 5.8 سے اوپر جاتا ہمارا ملک آئی ایم ایف کے پاس گروی نہ ہوتا اور ہمارے سابق سپہ سالار جنرل باوجوہ صاحب کو یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آتی کہ”بھارت سے اب ہماری کوئی دشمنی نہیں“سابق سپہ سالار صاحب کو یقینا اس بات کا بھی ادراک ہوا ہو گا کہ موجودہ تباہ حال معیشت کے دنوں میں اگر بھارت سے ہی جنگ چھڑ جاتی ہے اور جنگ کے تیسرے دن ہی اگر جنگی جہازوں اور ٹینکوں کے لیئے پٹرول کاا سٹاک یا زخیرہ ختم ہو گیا تو وہ کیا کریں گے؟ وہ بخوبی جانتے تھے کہ خالی جذبوں اور ملی نغموں سے جہاز اور ٹینک نہیں چلا کرتے اور یہ کہ مضبوط دفاع کے لیئے مضبوط معیشت نا گزیر ہے۔
روایتی جنگوں کا زمانہ بیت گیا،اب معاشی جنگوں کا دور دورہ ہے اور بد قسمتی سے، جس میں ہم دشمن کے مقابلے میں حالیہ سالوں سے معاشی شکست خوردہ ہو کر اس سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ملکی دفاع کو مضبوط بنانے کے لیئے ریاست کو معاشی طور پر مستحکم کرنا ہی ہو گا جو صرف اشٹبلشمنٹ کی مداخلت سے پاک جمہوری حکومتوں کے زریعے ممکن ہے۔آپ کے بڑوں نے بار ہا مختلف تجربات کیئے، ملک کو لیبارٹری بنا کر رکھ دیا لیکن اُن بڑوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہی پیچھے گیا۔حالیہ سالوں میں آپ کی اپنی”کارکردگی“ بھی سب کے سامنے آ چکی ہے، جب آپ کے "ڈاکٹرائن" کا بت گر کے پاش پاش ہو چکا تھا جس کی کرچیاں ملک کے چوبیس کروڑ عوام کے پیروں میں نہ جانے کب تک چبھتی رہیں گی ۔
واپس کریں