دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرے شنگھائی کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کی سازش؟
No image بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی اور عوام کو درپیش اقتصادی مسائل کے حل کیلئے پی ٹی آئی کا جاری احتجاج گزشتہ روز اسلام آباد میں پرتشدد مظاہروں کی شکل اختیار کر گیا۔ پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے مارچ کے ڈی چوک پر پہنچنے کی کال پر انتظامیہ نے اسلام آباد آنیوالے تمام راستے سیل کر دیئے جس کے باعث راولپنڈی سے اسلام آباد کا رابطہ منقطع ہو گیا۔ اسلام آباد میں فوج تعینات کر دی گئی‘ سڑکوں پر فوجی دستوں کا گشت شروع ہو گیا‘ انٹرچینج پر خیبر پی کے سے آئے قافلے روک لئے گئے اور ڈی چوک‘ راولپنڈی مری روڈ‘ سوہان‘ ایکسپریس وے‘ فیض آباد اور دیگر اطراف سے آنیوالے راستوں پر پولیس نے پی ٹی آئی کارکنوں پر شیلنگ کرتے ہوئے انہیں آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی۔ اس دوران بانی پی ٹی آئی کی دوبہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خانم سمیت درجنوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ مظاہرین کے پتھرائوسے ایس پی علی رضا سمیت متعدد پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ برہان انٹرچینج موٹروے پر خیبرپختونخوا کا قافلہ اور پولیس دستے آمنے سامنے آگئے۔ پولیس نے ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کی تاہم پی ٹی آئی کے کارکن ڈی چوک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جہاں پولیس نے ان پر مزید شیلنگ کی اور مزید چار کارکنوں کو گرفتار کرلیا۔ آئی جی پولیس اسلام آباد کے مطابق مختلف مقامات سے گرفتار کئے گئے پی ٹی آئی کارکنوں کی تعداد 30 سے تجاوز کر گئی ہے۔ انکے بقول کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ پی ٹی آئی کے احتجاج کے باعث راولپنڈی مری روڈ سمیت اہم شاہراہیں گزشتہ 24 گھنٹے سے بند ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں پر موجود نہیں‘ گزشتہ روز شام ڈھلتے ہی پی ٹی آئی کے گلیوں میں چھپے کارکن باہر آگئے اور نعرہ بازی شروع کر دی۔ وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور کا قافلہ برہان انٹرچینج پر روک لیا گیا۔ پنڈی بھی جڑواں شہر سے کٹ گیا۔جگہ جگہ کنٹینرز رکھ دیئے گئے اور ٹرک کھڑے کرکے پولیس کو تعینات کر دیا گیا۔ اسلام آباد جانیوالی تمام شاہراہیں‘ ریڈزون اور ڈی چوک جانے والے راستے کنٹینر لگا کر بند کر دیئے گئے ہیں۔ سکیورٹی ہائی الرٹ ہے اور اسلام آباد کے علاوہ لاہور‘ راولپنڈی‘ اٹک اور سرگودھا میں بھی دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے جبکہ حکومت پنجاب نے ان شہروں میں رینجرز بھی طلب کرلی ہے جس کے تحت ہر قسم کے سیاسی اجتماعات‘ دھرنوں‘ جلسوں‘ مظاہروں اور احتجاج کی شکل والی تمام سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد ہے۔ لاہور میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے اعلان کے باعث گزشتہ روز رینجرز کی تین کمپنیوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے باور کرایا ہے کہ انہیں سڑکوں کی بندش سے لوگوں کی پریشانی کا اندازہ ہے‘ اس پر وہ عوام سے معذرت خواہ ہیں۔ لیکن جو لوگ احتجاج کے نام پر آرہے ہیں‘ انکے پاس اسلحہ ہے اور وہ اس بارے میں کوئی دو ائے نہیں رکھتے کہ یہ لوگ اسلام آباد پر دھاوا بول رے ہیں‘ ہم کسی کو بھی اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت نہیں دینگے۔ انہوں نے ڈی چوک اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو سوچنا چاہیے کہ حکومت کو ایسے اقدامات کیوں اور کن لوگوں کی وجہ سے اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ یہاں آئی جی سے لے کر پولیس کانسٹیبل تک سب الرٹ ہیں‘ اس لئے جو لوگ احتجاج کا سوچ رہے ہیں‘ وہ اپنے اقدام پر غور کریں۔ ہمارے کسی پولیس اہلکار کے پاس بندوق نہیں ہے۔ ہماری ایس او پی ہے۔ اگر فائرنگ ہوئی تو پتہ چل جائیگا کہ کہاں سے ہوئی۔ انہوں نے وزیراعلیٰ کے پی کے گنڈاپور کو باور کرایا کہ وہ پہلے پاکستانی اور اسکے بعد سیاسی کارکن ہیں۔ وہ سوچیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ وہ جس منصب پر ہیں‘ اس میں ان کا رابطہ حکومتی عہدیداروں سے رہتا ہے۔ ان سے توقع ہے کہ وہ پاکستانی بن کر سوچیں گے۔ اسکے برعکس علی امین گنڈاپور نے اعلان کیا کہ ڈی چوک ہماری منزل ہے‘ ہم ہر صورت وہاں پہنچیں گے‘ اگر احتجاج رکوانا ہے تو قیدی نمبر 804 سے رابطہ کریں۔ آئین کی بحالی اور حقیقی آزادی کیلئے سب کو نکلنا ہے۔
بے شک آئین پاکستان کی بنیادی انسانی حقوق اور جماعت و تنظیم سازی کی متعلقہ شقوں کے تحت ملک کے ہر شہری کو اظہار رائے اور اجتماع کرنے یا اجتماع میں شریک ہونے کی مکمل آزادی ہے اور کسی ناجائز طریقے سے شہریوں کے اس حق پر کسی قسم کی قدغن لگانا آئین و قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں ہی آئیگا مگر اظہار رائے اور اجتماع کرنے کا حق شتربے مہار اور تخریبی مقاصد کیلئے تو ہرگز استعمال نہیں ہو سکتا۔ اس لئے آئین کی متعلقہ دفعات میں اس حق کے استعمال کے پیرامیٹرز کا بھی تعین کیا گیا ہے جن کی خلاف ورزی پر متعلقین کی گرفت بھی لازمی آئینی اور قانونی تقاضا ہے۔ انسانی معاشرے میں لوگوں کو یقیناً اپنے روٹی روزگار کے حوالے سے مسائل بھی درپش ہوتے ہیں جن کی جانب اہل اقتدار کی توجہ دلانے کیلئے لوگ سڑکوں پر آئیں تو وہ اس میں حق بجانب ہونگے مگر یہ احتجاج بھی قانون کے دائرے میں رہ کر ہی ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی اپنے کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت احتجاج کے نام پر ریاست کے ساتھ ٹکرانے کی کوشش کریگا تو اسے آہنی ہاتھوں سے نکیل ڈالنا آئین اور قانون کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ اس تناظر میں اگر 2012ء سے اب تک بطور خاص پی ٹی آئی کے اپوزیشن کے ادوار میں اسکے سیاسی طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بلیم گیم کی سیاست کی بنیاد پر ملک میں افراتفری‘ سنسنی‘ ہیجان کی فضا گرما کر ملک کو سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام کی جانب دھکیلنا ہی اس پارٹی کی قیادت کا ایجنڈا نظر آتا ہے اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک میں کسی بھی وجہ سے پیدا ہونیوالی عدم استحکام کی فضا سے ہمیشہ ہمارا مکار دشمن بھارت فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے جس نے اس مقصد کیلئے پہلے ہی پاکستان میں اپنا نیٹ ورک پھیلا رکھا ہے جس کے ساتھ پاکستان کے بدخواہ بعض اندرونی عناصر بھی جڑے ہوئے ہیں جن کے ذریعے پاکستان میں افراتفری اور دہشت گردی پھیلانے کیلئے بھارت انکی مکمل سرپرستی اور فنڈنگ کرتا ہے اور اسکے ٹھوس ثبوت بھی پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں کے پاس موجود ہیں۔ اب پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے عزائم میں بھارت کو افغانستان کی طالبان حکومت کی معاونت بھی حاصل ہو چکی ہے جس کی شہ پر افغان دہشت گرد دندناتے ہوئے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور یہاں انسانی خون کی ندیاں بہانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے جبکہ ان وارداتوں میں ان کا اصل ہدف پاکستان کے سکیورٹی ادارے اور اہلکار ہوتے ہیں۔
اس تناظر میں اگر پی ٹی آئی کے اپریل 2022ء سے اب تک کے احتجاجی مظاہروں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں تخریب کاری میں ملوث عناصر افغانستان سے آکر پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہروں میں شریک ہونے والے لوگ ہی پائے گئے ہیں جو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا اپنا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی ان مظاہروں کیلئے بادی النظر میں ان افغان عناصر اور کسی بھارتی ایجنسی کی معاونت حاصل کرتی ہے تو اسکی حب الوطنی پر یقیناً سوال اٹھیں گے جبکہ بانی پی ٹی آئی عمران خان خود اپنی تقاریر میں پاکستان اور پاکستان کی فوج کے تین ٹکڑوں میں تقسیم ہونے اور پاکستان پر ایٹم بم مارنے کی باتیں کر چکے ہیں۔ اس تناظر میں یہ سیاست تعمیری سیاست کے زمرے میں تو ہرگز نہیں آتی جبکہ اس سیاست سے ملک کو 2014ء سے اب تک جتنے بڑے نقصانات اٹھانا پڑے ہیں‘ وہ ناقابل تلافی ہیں۔ 2014ء میں چین کے صدر کا دورہ پاکستان شیڈول تھا جو پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے اسلام آباد میں جاری دھرنے کے باعث موخر ہوا اور چین کے صدر بھارت چلے گئے۔ چنانچہ چین کے جو تجارتی معاہدے پاکستان کے ساتھ ہونا تھے‘ وہ بھارت کے ساتھ ہو گئے۔
اس وقت بھی جبکہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کے سفر کا آغاز ہو چکا ہے اور ہمیں رواں ماہ 15 اکتوبر سے موثر علاقائی تنظیم شنگھائی کانفرنس کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل ہو رہا ہے جس میں پندرہ سال بعد پہلی بار بھارتی وفد بھی شریک ہو رہا ہے‘ پی ٹی آئی کے تخریبی احتجاجی مظاہروں کا آغاز بادی النظر میں شنگھائی سربراہی اجلاس کو سبوتاژ کرنے کی ہی سازش ہے جبکہ یہ احتجاج عوام کے مسائل کے حل سے زیادہ بانی پی ٹی آئی کو رہائی دلا کر ہر صورت اقتدار میں واپس لانے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ اگر ایسے کسی احتجاج کے ذریعے اسلام آباد پر دھاوا بولنے اور ریاست کو چیلنج کرنے کی کوشش کی جائیگی تو ریاست کی نگہبان انتظامی مشینری کیوں حرکت میں نہیں آئیگی۔ بہتر یہی ہے کہ شنگھائی کانفرنس کے انعقاد تک پی ٹی آئی اپنے تمام احتجاجی پروگرام مؤخر کردے اور پرامن احتجاج کا راستہ اختیار کرے۔
واپس کریں