دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"بلوچستان ایک. ایس ایچ او کی مار ہے۔ علی احمد کرد
No image وکلا تحریک کو کامیاب ہوئے صرف چند ماہ ہی ہوئے تھے اسلام اباد میں مجھے ایک شادی میں مدعو کیا گیا یہ اسلام اباد کے elite کلاس کی شادی تھی اسلام اباد میں جو بڑا ادمی ہو سکتا تھا وہ موجود تھا باقی لوگوں کو چھوڑ کر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ، اسد درانی میرے پاس ایا اور پوچھا سنائیے کرد صاحب ، بلوچستان کے ، کیا حالات ہیں میں نے مسکراتے ہوئے کہا کیا یہ ایک عجیب بات نہیں کہ ISI DG مجھ جیسے عام ادمی سے بلوچستان کے حالات پوچھ رہا ہے انہوں نے اپنے اندر کی کیفیت کو چھپاتے ہوئے کہا اپ ایک عام نہیں بلکہ علاقے کے اہم آدمی ہیں میں نے ان کے سوال کے جواب میں کہا کہ اگر اپ بندوق کی نالی سے بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو میرے خیال میں یہ نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے یہ سننا تھا کہ وہ پورے غصے کے ساتھ کہنے لگے کہ یہ سارے" را " کے ایجنٹ اور دہشت گرد ہیں اور ان کو ختم کرنا کوئی مشکل کام نہیں اج اس گفتگو کو 14 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ پہلے بی ایل اے کے کچھ لوگ کاروائی کرتے تھے اج کل بڑے گروپ ُُکی صورت میں اتے ہیں اور جو چاہے کر کے چلے جاتے ہیں, محسن نقوی کا یہ کہنا کہ بلوچوں کے یہ دہشت گرد ایک SHO کی مار ہے یہ اسد درانی کی سوچ کا دوسرا برانڈ ہے , صرف چار دن پہلے ایک ٹی وی چینل پہ کوئی برگیڈیر دفاعی تجزیہ نگار نے تقریبا چیختے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ماھ رنگ بلوچ نے ایک مہینے سے ملک میں جو افراتفری مچا رکھی ہے پکڑو مارو اور تباہ کرو, یہ اسد درانی کے سوچ کی تیسری برانڈ ہے ۔
ملک میں ایک چوتھی برانڈ بھی موجود ہے جو بڑے فخر سے کہتی ہےکہ مشرقی پاکستان ایک ہزار میل دور واقعہ تھا جہاں پر فوج کی ٹینکیں نہیں جا سکتی تھی جبکہ یہاں پر یہ مشکلات نہیں ہیں یہی وہ ساری بنیادی سوچ ہے جس کے تحت بلوچستان کے مسئلے کو پچھلے 76 سال سے حل کیا جا رہا ہے ان تمام سوچوں کا شاخسانہ بنیادی طور پر , عسکری طاقتور حلقوں کا وہ گمراہ کن خیال تھا کہ بلوچوں کو جو کہ صرف چند لاکھ نفوس پہ مشتمل ہے ان کو طاقت کے بل بوتے پہ ختم کرنا کوئی بڑی بات نہیں اور یہی وہ سوچ تھی جس کے تحت نواب نوروز خان کے خاندان کے سات افراد کو ایک رات میں پھانسی پہ چڑھایا گیا۔
میں ایک انسان ہوں اور بہت حساس طبیعت کا مالک ہوں میں نے ہمیشہ تقریروں میں کہا ہے کہ میں اس پنجابی خاتون کو ساری زندگی نہیں بھول سکتا جس نے غربت کی وجہ سے اپنے خوبصورت دو بچوں کو اپنے بازوں میں لے کر نہر میں ڈوب کر خودکشی کی اور یہ بھی اسی ملک کا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے غربت کی وجہ سے اپنے چار سال کے بچے سے لے کے 12 سال کے بچوں کے ساتھ بیوی کو ذبح کر کے ہلاک کیا ، یہ ملک اب صرف امیروں کی جنت ہے جس میں 11 کروڑ سے زیادہ لوگ غربت اور افلاس کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں، راڑا شام میں 23 افراد کو قتل کرنے کا واقعہ یقینا بڑا افسوس ناک ہے مگر یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ اس کی شروعات محسن نقوی جیسے شخص کے بے ہودہ خیالات کے حامل لوگوں نے کی ہے جنہوں نے ایک بڑے عرصے تک بلوچ لڑکوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکتے رہے ، کسی بھی اپریشن کے نام سے ہیلی کاپٹر سے بے تحاشہ فائرنگ کر کے لوگوں کو ہلاک کیا گیا ، کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ کئی کئی سال سے سینکڑوں بلوچ لڑکوں کو جبری طور پہ اغوا کر کے لاپتہ کیا ہوا ہے ، حیات بلوچ کو اس کی ماں کے سامنے گولیاں کے بوچھاڑ سے قتل کیا گیا بلوچستان سینکڑوں سال سے ایک پرامن علاقہ رہا ہے جس میں پٹھان ہزارہ پنجابی سندھی سرائیکی ہندو اور بلوچ بھائیوں کی طرح رہتے ا رہے ہیں بلوچستان جیسے پرامن علاقے میں جنہوں نے یہ خون خرابے کا گیم شروع کیا ہے اس کو ختم کرنے کی ذمہ داری بھی انہی کے اوپر ہے بلوچستان کا مسئلہ مکمل طور پہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اس کو بیٹھ کر حل کرنا ہم سب لوگوں کی ذمہ داری ہے مگر جن کے پاس طاقت ہے یہ فرض بھی انہی کا بنتا ہے ۔
واپس کریں