’’انصاف میں تاخیر ، انصاف سے انکار‘‘ کا محاورہ بکثرت استعمال ہوتا ہے اور حقیقت کی بالکل درست عکاسی کرتا ہے۔ تاہم ہماری عدالتوں کا حال اس حوالے سے انتہائی توجہ طلب ہے۔ سنگین جرائم کے الزام میں گرفتار افراد کے مقدمات کے عشروں تک جاری رہنے کے بعد بارہا حتمی فیصلہ ان کے بے قصور قرار پانے اور پھر باعزت بری ہونے کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
ملک کی تمام عدالتوں کی بات کی جائے تو دستیاب اعداد وشمار کے مطابق لاکھوں مقدمات برسوں سے فیصلوں کے منتظر ہیں جبکہ صرف سپریم کورٹ کی وسط جولائی کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ زیر التوا مقدمات 59 ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں ۔اس تناظر میں سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد17 سے بڑھا کر23کرنے کا حکومتی فیصلہ ضرورت کے عین مطابق نظر آتا ہے جس کے لیے حکومتی رکن بیرسٹر دانیال چوہدری نے1997ءکے قانون میں ترمیم کی خاطر سپریم کورٹ (ججزتعداد) ترمیمی بل قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروا دیا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافہ زیر التوا مقدمات کی کثرت کے باعث ضروری ہے۔
ججوں کی تعداد بڑھانے سے اُن پر غیر ضروری دباؤ میں کمی ہوگی اورمقدمات کی بر وقت سماعت اور جلد فیصلوں کو یقینی بنایا جاسکے گا۔ بل میں مزید کہا گیا ہے کہ سائبر کرائم، ماحولیاتی قوانین اور عالمی تجارت کے مقدمات میں ماہرین کی ضرورت ہے کیونکہ مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے ججوں کی تقرری سے درست فیصلہ سازی ممکن ہوسکے گی۔ اس اقدام کے یہ اسباب عملی حقائق اور ضرورت سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں لہٰذا پارلیمنٹ میں اس بل کی منظوری میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم سماعت کی طویل تاریخوں، جھوٹے گواہوں اور وکلاء کے تاخیری حربوں جیسی وجوہات کا دور کیا جانا بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ججوں کی تعداد بڑھانے کا پورا فائدہ حاصل نہیں ہوسکے گا۔
(اداریہ جنگ)
واپس کریں