انصاف کی فراہمی کی عالمی درجہ بندی میں ہماری عدلیہ کا نمبر آخری تو ہے ہی لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ قانون دان بننے کے خواہشمند اور نوجوان قانون دان مسلسل مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔یہ خاکسار ایسے کئی وکلاء کو جانتا ہے جو اپنا تعارف بطور وکیل کروانے سے کتراتے ہیں، کئی ایسے بھی ہیں جو وکالت کا لائسنس رکھنے کے باوجود اپنے زریعہ معاش کے لیئے مختلف پیشہ اختیار کیئے ہوئے ہیں اور کئی وکلاء حضرات ایسے بھی ہیں جو وکالت کی کمائی کو ہی ناجائز سمجھتے ہیں اور اس ساری صورتِ حال ہی وجہ وہی کہ ہمارا عدالتی نظام جو اب محض ایک دکان یا کاروبار بن کر رہ گیا ہے اور جو ایسے نوجوان وکلاء کے لیئے شرمندگی اور ندامت کا باعث بنتا ہے۔
فیس بک پر پاکستانی عدالتی نظام کے حوالے سے میری ایک حالیہ تنقیدی (لیکن تعمیری) پوسٹ پر ایک نوجوان قانون دان محترم جمیل خان نے حقائق پر مبنی تبصرہ کیا ہے جس پڑھنے کے بعد افسوس تو ہوتا ہی ہے لیکن اور اس بات کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں ہوتا کہ نوجوان اور سنجیدہ وکلاء اپنے پیشے کے حوالے سے آج کل کیا سوچتے ہیں۔ملاحظہ فرمائیں
”شامی صاحب۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے بعد کس کا حکم چلنا ہے؟ کوئی نہیں بتائے گا؟ پرچیاں گھروں تک اپروچ اور چھوٹے عدالتی نظام کے ٹاوٹ اور ایجنٹ اور رشتہ دار ڈسٹرکٹ لیول عدلیہ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ کسی ''بڑے'' نے ماسوائے چند چنیدہ کیسز کے عوام کی فائلیں جاکر پوچھی ہوں کہ کیا حالات ہیں۔ میں نے بہت جذبہ سے لاء گریجویشن کی۔ لائسنس حاصل کیا۔ مگر عدالتی نظام کو پرکھتے ہوئے الگ ہو کر چلنے کا فیصلہ کر لیا۔ جس کے پاس تمام اسٹنٹ سیشن ایڈیشنل سیشن اور علاقہ مجسٹریٹ کے '' مخصوص کئے گئے بندوں کا'' اتا پتا اور دوستی ہے اس کی پریکٹس تو میزائل کے جیسی ہے جس کی ''پی۔آر'' نہیں ہے وہ کسی کام کا وکیل نہیں۔ بالکل ناکام ہے، چاہے لاء میں بیرسٹر کہلاتا ہو۔“
یہ درست ہے کہ ایک مچھلی پورے تالاب کو گندہ کرتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سارے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ نوجوان قانون دان محترم جمیل خان کو اس خاکسار کا مشورہ ہے کہ اسی نظام کے اندر رہ کر وہ اور ان جیسے بے شمار نوجوان وکلاء اس گندے تالاب کی صفائی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اور یقینا یہ کوئی معمولی کام نہیں ہو گا بلکہ اس سے جہاں عدالتوں میں سفارش اور پرچی کلچر کا خاتمہ ہو گا تو وہاں نوجوان وکلاء کے اعتماد میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گا۔ محترم جمیل خان یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر ان جیسے دیگر وکیل بھی عدالتوں میں آنا چھوڑ دیں یا مایوس ہو کر گھروں میں بیٹھ جائیں تو عدالتوں میں آنے والے مظلومین، بے یاومددگار اور بے آسرا لوگ کس کے سہارے پر انصاف حاصل کر سکیں گے؟
واپس کریں