دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آن لائن بزنس کا مستقبل کیا رہ گیا؟مشتاق احمد قریشی
No image آج سے تیس سال قبل پاکستان کے ’’آئرن فرینڈ‘‘ میں جب انٹرنیٹ کا استعمال عام ہوا تو اس وقت کی کمیونسٹ پارٹی نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کیلئے انٹرنیٹ کا استعمال کیا، حکومت وقت کو منفی پروپیگنڈا کا سامنا تھا۔ کمیونسٹ حکومت نے اس انفارمیشن کے بہاؤ کو کنٹرول کرنا تھا اور اس کیلئے ٹیکنالوجی ماہرین سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور انٹرنیٹ کی سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں نے اس کا حل انٹرنیٹ ٹریفک کے بہائو پر کچھ قدغنیں (فلٹرز انسٹال) لگانے کا مشورہ دیا، یہ پہلی فائر وال تھی۔ آج ربع صدی کے بعد پاکستان میں فائر وال کا نام انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو سننے کو ملا ہے۔ ایک ماہر کے مطابق فائر وال اصل میں ایک ایسا سافٹ ویئر ہے جو کسی بھی نیٹ ورک پر آنے والے اور اس سے باہر جانے والے ٹریفک کو فراہم کیے گئے رولز کے حساب سے بلاک کرتا یا اجازت دیتا ہے۔ چین میں 2013ء تک اس کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوا تھا۔ فائر وال میں ایک چیز ،جوسب سے اہم استعمال کی جاتی ہے، وہ ڈیپ پیکٹ انسپکشن ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ انٹرنیٹ پر انفارمیشن کا تبادلہ پیکٹس کی صورت میں ہوتا ہے جو ایک قسم کا ایسا لفافہ ہوتا ہے جس میں دو چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک پیکٹ ہیڈر اور دوسرا پیکٹ پے لوڈ، پہلے میں بھیجنے والے اور موصول کرنے والے کا پتا، پروٹوکول، پورٹ اور سکیورٹی انفارمیشن ہوتی ہے۔ باقی پے لوڈ میں اصل میسج یا بھیجی گئی معلومات ہوتی ہیں۔ عام طور پر فلٹر یا فائر وال میں پیکٹ کا صرف ہیڈر چیک کیا جاتا ہے اور اس پر ٹریفک رول کے حساب سے عمل کیا جاتا ہے، میسج کے اندر کیا ہے وہ چیک نہیں کیا جاتا لیکن ڈی پی آئی کی صورت میں پیکٹ کا اصل میسج بھی چیک کیا جاتا ہے۔ یہ جانچ صارفین کی پرائیویسی کا خیال نہیں رکھتی۔ ڈی پی آئی کا مقصد انٹرنیٹ ٹریفک کی جانچ کرکے کوالٹی کو بہتر بنانا، کھوج لگانا، غیر ریاستی عناصر کا پتا لگانا ہوتا ہے۔ ہر ملک کسی نہ کسی سطح پر اس کا استعمال کرتا ہے اور اپنے شہریوں تک معلومات کی رسائی کو کنٹرول کرتا ہے، اسکے استعمال کے کئی مقاصد ہوسکتے ہیں، ابھی حال ہی میں یورپی یونین نے ایک بل پیش کیا ہے جس میں بچوں سے زیادتی کے بارے مواد کو اسکین کرنے کی غرض سے ایسا سسٹم متعارف کروایا جائے گا جس میں انتہائی محفوظ کمیونیکیشن سسٹم کے ٹریفک کو بھی اسکین کیا جائے گا۔ سکیورٹی اور حکومت کے اداروں کیلئے واٹس ایپ کی خفیہ (Encrypted) انفارمیشن تک رسائی ضروری ہوتی ہے جسکے لیے مخصوص سافٹ ویئر استعمال کیے جاتے ہیں۔ آج کا دور اے آئی (مصنوعی ذہانت) اور مشین لرننگ کا ہے۔ اگرچہ ابھی تک واٹس ایپ کی اس انکرپشن کو انتہائی محفوظ مانا جاتا ہے کیونکہ ایف بی آئی کئی بار واٹس ایپ کی کمپنی میٹا کو عدالت کے ذریعے درخواست کرچکی ہے کہ اسے مطلوبہ معلومات تک رسائی دی جائے لیکن واٹس ایپ کمپنی نے انکار کردیا۔ چین نے اب جدید سوشل میڈیا ذرائع یو ٹیوب، انسٹا گرام اور سرچ انجن جیسے متبادل ٹول کامیابی سے بناکر مقبول کرلیے ہیں جس سے اس کی اپنی بنائی گئی ان ایپلی کیشنز کی وجہ سے تمام مواد تک سو فیصد رسائی ممکن ہو گئی ہے۔
فوربز کے مطابق پاکستان میں وی پی این کا استعمال ٹویٹر کی بندش کے بعد چار سو فیصد تک بڑھ گیا ہے۔ جب کوئی وی پی این استعمال کرتا ہے تو اس کا سارا ٹریفک خفیہ حالت میں وی پی این سرور کی طرف جاتا ہے اور اگر فائر وال اس ٹریفک کو ’’آشکار‘‘ نہ بھی کرسکے تو وہ یہ جان جاتا ہے کہ صارفین ایک خاص قسم کے نیٹ ورک پر جا رہے ہیں یعنی وی پی این کا استعمال کر رہے ہیں پھر آئی ایس پی چاہے تو اس وی پی این کو بھی بلاک کرسکتا ہے یا بہت زیادہ سست بنا سکتا ہے۔ وی پی این خود سے بھی انٹرنیٹ کو سست بنا دیتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں واٹس ایپ یا دوسری سوشل میڈیا ایپس کو ایک طویل عرصے تک بند رکھنا ممکن نہیں کیونکہ وہ کمپنی لاکھوں کروڑوں صارفین سے محروم ہو جاتی ہے ’’نوبت بہ ایں رسید‘‘ کہ انڈیا میں گوگل اپنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس اے آئی کیلئے مفت تربیت کا اعلان کررہی ہے اور دوسری طرف پاکستان میں فائیور کمپنی پاکستانی فری لانسر کے اکائونٹس کے ساتھ تنبیہ لگا رہی ہے کہ پروجیکٹ دینے سے پہلے ایک دفعہ سوچ لیں کیونکہ اس ملک میں انٹرنیٹ کا مسئلہ ہے، کیا ہم اپنی حکومت کو اس بہترین کارنامے پر مبارک باد دیں۔ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ پلیس فائیور نے آفیشلی کہہ دیا ہےکہ پاکستانیوں کو کام مت دیں، کیونکہ وہاں انٹرنیٹ صحیح طور پر کام نہیں کررہا ہے۔ اس وجہ سے انہیں کام ڈیلیور کرنے میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
فائر وال ہے یا جس وجہ سے بھی نیٹ سلو کر دیا گیا ہے لیکن یہ تو طے ہوگیا ہے کہ اگر یہ چند ہفتے مزید ایسا ہوتا رہا تو پاکستان آن لائن فری لانسنگ مارکیٹ سے آؤٹ ہو جائے گا۔ جب آپ وقت پر اپنے کلائنٹس کو اسائنمنٹ نہیں دے سکیں گے۔ جب آپ کلائنٹس کی ای میل کا جواب یا واٹس ایپ میسج کا جواب فوری نہیں دے پائیں گے۔ جب آپ نئے پروجیکٹ لینے کیلئے اپ ورک، لنکڈ ان، فائیورر جیسی ویب سائٹس کو چلا ہی نہیں پائیں گے تو یقینی طور پر فری لانسرز کی موت ہو جائے گی۔
عالمی سطح پر انٹرنیٹ کی دنیا سے منسلک کاروباری ادارے اب اس بارے میں بخوبی آگاہ ہیں اس لئے انہوں نے پاکستان کے نوجوانوں کے ساتھ کاروبار، خدمات کے حصول و فراہمی سے آنکھیں پھیرنا شروع کر دی ہیں۔ آن لائن بزنس کرنے، خدمات دینے والے لوگ جو اب بے روزگار ہورہے ہیں ان کی تعداد کم نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کم و بیش اسی لاکھ افراد کے آن لائن کاروبار متاثر ہوئے ہیں۔ ایک خطیر رقم خرچ کرکے اس فائر وال کو بنانے والے پالیسی میکر اس فائر وال بنانے کی بجائے اس خطیر رقم کو آئی ٹی کی ترقی کیلئے خرچ کرتے تو شاید نہیں یقیناً ہم آئی ٹی ورلڈ میں اونچا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔ بس اب تو کہنے کے لیے یہ رہ گیا ہے کہ ’’رہے نام اللہ کا جو حاضر بھی ہے ناظر بھی‘‘۔
واپس کریں