دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آئی ایم ایف سے آزادی ناگزیر ۔ضیا الرحمٰن ضیا
No image ہم 14 اگست کو جشن آزادی مناتے ہیں لیکن حقیقتاً ہم آزاد نہیں ہوئے۔ ہم ذہنی، تعلیمی، معاشی اور معاشرتی طور پر غلامی در غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ایک دن جشن آزادی جوش و خروش سے منا لینے سے کوئی قوم آزاد نہیں ہوجاتی بلکہ اس کےلیے مثبت سوچ، جدید تعلیم اور بہترین تربیت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے افراد پیدا کرنے کی ضرورت ہے جن کے اندر وطن کا احساس ہو۔ جو ملک کےلیے دل میں حقیقی درد رکھتے ہوں۔ مگر بدقسمتی سے ہم ایسی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے گئے ہیں کہ ان سے رہائی کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی۔ غلامی کی ان زنجیروں میں ایک آئی ایم ایف بھی ہے۔
آئی ایم ایف یا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کہنے کو تو ایک عالمی مالیاتی ادارہ ہے لیکن جب سے اس ادارے پر امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کا اثر ورسوخ بڑھا ہے تب سے اس ادارے نے غریب ممالک کا جینا حرام کردیا ہے۔ یہ ادارہ ان ممالک پر ایسی ایسی شرائط عائد کرتا ہے جو ان کی معیشت کے ساتھ ساتھ ان کی خودمختاری کےلیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ پھر یہ غریب ممالک آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بعد اس کے چنگل سے نکل نہیں پاتے، کیونکہ وہ سود اور پھر سود در سود کے جال میں بری طرح پھنس جاتے ہیں اور آئی ایم ایف ان ممالک کو اتنا ہی قرض فراہم کرتا ہے جس سے وہ بمشکل بیرونی قرضوں پر لگنے والا سود ہی ادا کر پاتے ہیں۔ اس طرح انہیں اپنے دیگر اخراجات کےلیے پھر قرض لینا پڑتا ہے۔ یوں غریب ممالک آئی ایم ایف اور اس کے پس پردہ امریکا وغیرہ کے زیر اثر رہتے ہیں اور ان کی ہر شرط ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جن ممالک نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی غلطی کی، وہ معاشی طورپر تباہ ہوگئے۔ اس بینک کی واحد کامیابی یہ ہے کہ اس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ، جرمنی اور فرانس وغیرہ کی تعمیر و ترقی میں مدد کی۔ باقی غریب ممالک کےلیے تو آئی ایم ایف کے قرض زہر قاتل سے کم نہیں۔
پاکستان بھی انہی ممالک میں سے ایک ہے جو آئی ایم ایف سے قرض لے کر اپنی آزادی، خودمختاری اور سلامتی داؤ پر لگا چکے ہیں۔ پاکستان نے بھی آئی ایم ایف کی شرائط مانیں اور قرض لے کر معیشت کی تباہی کا تحفہ حاصل کرلیا۔ پاکستان کی ہر حکومت نے ان قرضوں کا مزا چکھا ہے۔ کوئی جماعت یا کوئی حکمران اس سے محفوظ نہیں رہا۔ اس کے پاس وہ بھی گئے جو اقتدار میں آنے سے قبل یہ کہا کرتے تھے کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے خودکشی کرلیں گے۔ آئی ایم ایف نے سرکاری ملازمین کی پنشن ختم کرنے اور تمام سبسڈیز ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ وہ سی پیک کی معلومات حاصل کرلینے کے بعد اب ایٹمی پروگرام سے متعلق جاننے کا بھی خواہشمند ہے۔ دراصل آئی ایم ایف کو ان تمام شرائط کی اتنی ضرورت نہیں جتنی کہ امریکا کو ہے۔
امریکا پاکستان سے یہ تمام معلومات براہ راست لینے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے وہ آئی ایم ایف کا سہارا لے رہا ہے اور آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف کے مطالبے پر سی پیک سمیت انتہائی حساس منصوبوں کی تفصیلات آئی ایم ایف کو فراہم کرچکا ہے اور وہ یقیناً امریکا تک پہنچ چکی ہوں گی۔ اب پاکستان کی مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا نے راستہ صاف دیکھا تو اس نے آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور دفاعی پلان کی بھی معلومات حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں اور بڑی حد تک کامیاب بھی ہوچکا ہے۔ ہماری حکومتیں بلاتامل انہیں معلومات فراہم کر رہی ہیں جو پاکستان کی سلامتی کےلیے شدید نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔
ہماری حکومتوں کو چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف کی ہر شرط پوری نہ کریں بلکہ کوشش یہ کی جائے کہ آئی ایم ایف کے بجائے دوست ممالک سے قرض وصول ہوجائیں کیونکہ ان ممالک کی اتنی کڑی شرائط نہیں ہوتیں کہ وہ ملکی سلامتی کےلیے خطرہ بنیں۔ اس کے علاوہ معیشت کی بہتری کےلیے زیادہ سے زیادہ صنعتیں قائم کی جائیں اور بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی طرف متوجہ کیا جائے تاکہ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہو اور معیشت مضبوط ہوجائے۔ حکومت اگر مختلف مفت پروگراموں پر توجہ دینے کے بجائے پانچ سو فیکٹریاں اور کارخانے قائم کرلے تو یہ عوام کےلیے زیادہ مفید ثابت ہوگا، کیوں کہ ایک طرف بہت سے بیروزگار لوگوں کو روزگار ملے گا تو دوسری طرف ملکی معاشی صورتحال میں بھی بہتری آئے گی۔ مختصر یہ کہ حقیقی آزادی کےلیے ہر حال میں آئی ایم ایف کے قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے۔
واپس کریں