احتشام الحق شامی۔ فیض حمید ٹرائیکا کے مذکورہ تینوں مرکزی کرداروں کا منصوبہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو کھڈے لائن لگا کر پی ٹی آئی کا اس ملک پر کم از کم10سال تک حکمرانی کرنے کا تھا۔ منصوبہ کے مطابق پاکستان میں صدارتی نظام کا نفاذ بھی شامل تھا اور فیض حمید اور ثاقب نثار کو اہم ترین حکومتی عہدوں سے نوازا جانا تھا۔باالفاظِ دیگر یہ اقتدار یا ریاستی طاقت کے حصول کی ایک جنگ تھی جس کے کمانڈر خود فیض حمید تھے لیکن پسِ پردہ بیرونی عناصر ملک میں خانہ جنگی کروانے، آئی ایم ایف کے دباو کے تحت ایٹمی پروگرام کو محدود یا رول بیک کرنے،اسرائیل کو تسلیم کرنے،چین سے دوری اختیار کرنے اورفوجی اخراجات کم کرنے کے ایجنڈے پر گامزن تھے۔
اس ٹرائیکا پر ہاتھ ڈالنے سے قبل پہلے یہ سوال درپیش رہا کہ کیا یہ ٹرائیکا ملک کے خلاف ہونے والی بیرونی سازش سے آگاہ ہے یا نہیں یا محض اقتدار کی لڑائی لڑ رہا ہے لیکن جب ڈیپ اسٹیٹ کی جانب سے اس ٹرائیکا اور بیرونی ہاتھ کے گٹھ جوڑ کے ٹھوس ثبوت پائے گئے تو پھر ڈیپ اسٹیٹ کی نشان دہی پر ریاست کی جانب سے کاروائی عمل میں لائی گئی۔
(پی ٹی آئی کے ترجمان روف حسن کے بھارتی رابطے،9 مئی،فارن فنڈنگ کیس جہاں بھارت،اسرائیل،برطانیہ اور امریکہ کی جانب سے پی ٹی آئی کے لیئے سرمایہ کاری کی گئی،امریکن کانگریس میں پی ٹی آئی کے حق میں قرارداد اور اس سے بھی قبل جب چینی صدر کو پاکستان کے دورے پر آنے سے روکا گیا۔یہی نہیں بلکہ ایک ناقابلِ معافی جرم یعنی سوشل میڈیا پر افواجِ پاکستان اور آرمی چیف کے خلاف مسلسل مہم۔مذکورہ ٹرائیکا کے یہ وہ چند گھناونے ٹھوس ثبوت ہیں)
عرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اکثر سوال کیا جا رہا ہے کہ(جیسا کہ یہ خاکسار بھی سوال اٹھاتا رہا ہے) فیض حمید اینڈ کمپنی اگر ملک،اداروں یا آئین کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث تھی تو ان کے خلاف پہلے کیوں نہیں کاروائی عمل میں لائی گئی،تو ظاہر یہ ہوا کہ بیرونی عناصر کے بڑے منصوبوں اور سازشوں سے نمبرد آزما ہونے کے لیئے ٹھوس ثبوت و شواہد کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ بہ وقتِ ضرورت دنیا کو بھی بتائے جا سکیں۔ ڈیپ اسٹیٹ کسی کو نہیں بخشتی کیوں نہ کوئی اہلکار خود اس کے اندر موجود ہو اور کتنے ہی بڑے عہدے پر ہو اور ریاست اور افواج کو کمزور کرنے کی سازش میں ملوث ہو۔ دیر ہو سکتی ہے لیکن اندھیر ہرگز نہیں اور یہی وہ ڈیپ اسٹیٹ ہے جو بھارت، اسرائیل اور امریکہ جیسے ممالک کے لیئے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں کسی فیض حمید، کسی عمران نیازی یا کسی ثاقب نثار کی کیا اوقات کہ اس کے شکنجے سے بچ سکے۔
یہ وہی ڈیپ اسٹیٹ ہے جس کی جانب سے حاضر سروس ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کی جانب سے سابق چیئرمین پیمر اور معروف صحافی ابصار عالم کے درمیان ہونے والی فون کال ریکارڈ کی گئی تھی جو اب منظرِ عام پر آئی ہے۔پاکستان زندہ باد
واپس کریں