دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا پی ڈی ایم کو حکومت دے کر پھنسایا گیا ہے؟
No image انتظار حسین۔عمران خان پر دن رات نااہل، سلیکٹڈ اور ناتجربہ کاری کے الفاظ کےساتھ تنقید کرنیوالی تجربہ کار حکومت خود منجھدار میں پھنس گئی، مہنگائی مکاﺅ مارچ کرنیوالی جماعتوں نے مہنگائی کا وہ طوفان کھڑا کردیا کہ اب عوام بھی سابق حکومت کی پالیسیوں کو بہتر سمجھنے پر مجبور ہوگئے، اپنی پالیسیوں سے عمران خان کو زیرو سے ہیرو بنانے والی حکومت کےلئے آگے کنواں اور پیچھے کھائی کی صورتحال بن چکی ہے، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کاسیاسی درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہاہے اور شہباز کابینہ چین اور آئی ایم ایف سے شدید گرمیوں میں مون سون کے موسم کی طرح آس لگائے بیٹھی ہے البتہ شرائط ایسی کہ تسلیم کریں تو مزید مشکلات نہ کریں تو بھی چارہ نہیں۔
عمران خان کی حکومت کو ختم کیوں کیاگیا اس کی دو وجوہات بتائی ہیں، اہم ترین ذرائع نے بتایاکہ موجودہ حکومت کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے بطور چیف آف آرمی سٹاف تعینات ہونے بارے ایسا ڈرایاگیا کہ سابق صدر آصف علی زرداری، میاں شہبازشریف، مولانافضل الرحمن سمیت پوری پی ڈی ایم فی الفور عمران خان کی حکومت گرانے پر نہ صرف راضی ہوئی بلکہ اس نے عمران خان کی دو بڑی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم اور بی اے پی کے بڑے حصے کو اپنے ساتھ ملانے کے ساتھ جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ شاہ زین بگٹی کو بھی رام کرلیا مگر کیا اس تجربہ کار حکومت اور عالمی مالیاتی اداروں سے ایک عرصہ ڈیل کرنیوالوں کوکیوں علم نہ ہوسکا کہ ملک ایسی معاشی گرداب میں پھنساہوا ہے کہ اگر اس عالم میں حکومت لی گئی تو سیاست کے ساتھ ملک کوبھی بڑانقصان پہنچے گا۔
اس ساری صورتحال بارے ایک طرف موجودہ حکومت کو علم تھا مگر اسے امید تھی دوست ممالک رجیم چینج کے بعد شہباز حکومت کے ساتھ کھڑے ہوجائینگے اور آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط سے بچ جائینگے مگر سب کچھ اس کے الٹ ہوگیا ۔ اس ساری صورتحال میں جب ایک اہم ترین شخصیت (حکومتی اتحادی) سے استفسار کیا گیا اور سادہ سا سوا ل کیا کہ کیا آپ پھنس نہیں گئے؟کیا ضرورت تھی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران کو گرانے کی جبکہ پی ٹی آئی حکومت خود اپنے بوجھ تلے دب رہی تھی مگر اسے کاندھا دے کر آپ اب ایسے نیچے آئے کہ واپسی کا راستہ مشکل ترین ہوچکاہے۔ جس پر اہم شخصیت نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہاکہ نہ صرف ہم سمجھتے ہیں کہ ہم پھنس گئے ہیں بلکہ ہم یا ہماری جماعت سمیت پوری حکومت ہی اس معاملے پر پریشان ہے۔
وفاقی کابینہ میں بھی آئے روز بڑھتی مہنگائی پر کئی بار تلخ کلامی بھی ہوچکی مگر ہمارے پاس اب کوئی چارہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم ڈیلیور کریں، جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ ایسا ہوا کیوں؟ توجواباً کہاکہ آپ کیا اتنے بھولے ہیں یا سمجھتے نہیں کہ ’اہم تعیناتی‘ کے سبب ہی یہ سب کچھ ہوا ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت میں شامل تمام جماعتیں سمجھتی تھیں عمران خان اگر مزید رہے تو اس سے سیاسی نقصان کے ساتھ ساتھ اس پارلیمانی نظام کو بھی خطرہ تھا کیونکہ ملک میں گزشتہ اڑھائی سال سے صدارتی نظام کی بحث چل رہی تھی اور خود پی ٹی آئی ممبران کھلے عام 18ویں ترمیم کیخلاف بیانات دے رہے تھے اس کے ساتھ کچھ اورعوامل بھی تھے البتہ ایک بات جس پر دھچکا لگا کہ شہبازشریف کے آتے ہی دوست ممالک کا اعتماد مزید بڑھ جائیگا اورہمیں توقع کے مطابق امداد ملے گی مگر ایسا فوری طور پر نہ ہوسکا اسی سبب وزیراعظم مشاورت کیلئے لندن گئے۔
ہم واقعی نہ صرف پھنس گئے ہیں بلکہ بری طرح پھنسے ہوئے ہیں مگر اب نکالنے کا حل بھی ”وہی“ نکالیں گے جب ان سے پوچھاگیا کہ مارچ میں 16 ارب 20 کروڑ سے زائد کے زر مبادلہ کے ذخائر تھے مگر آج 8ارب اور چند کروڑ کے ذخائر رہ گئے ہیں ایسی صورت میں آپ کیسے ڈیلیور کرینگے؟ تو گویا ہوئے ہمارے پاس ڈیلیور کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، آنیوالے دنوں میں حکومتی خرچوں کو مزید کم کرینگے اسی وجہ سے صنعت کاروں پر ٹیکسز عائد کئے ہیں مگر اس کا بھی علم ہے کہ اس کا بھی براہ راست عوام پر پڑیگا اور ہمار ے پاس سابق حکومت کی غلط معاشی پالیسی کے سوا کوئی بیانیہ بھی نہیں اسلئے آپ شائد اگلا سوال قبل از وقت الیکشن کا کرنا چاہتے ہیں تو انتخابات آئندہ سال ہی ہونگے اور اگلے بجٹ میں عوام کوریلیف دینگے البتہ اس کیلئے پورا سال محنت کرنا ضروری ہے۔
اسی معاملے پر جب سینئر صحافی اور پارلیمانی امور پر گہری نظر رکھنے حافظ طاہر خلیل صاحب سے استفسار کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ عجیب حکومت ہے جس نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ اور سپر ٹیکس لگادیا اس کا براہ راست اثر عوام پر پڑے گا نہیں بلکہ پڑچکاہے کیونکہ آج سیمنٹ کی بوری 800 روپے سے پہلے 1000 اور اب 1400 تک جاپہنچی ہے، اس حکومت میں کوئی چیک اینڈ بیلنس ہی نہیں ہے، سپرٹیکس لگاتے ہوئے سوچا تک نہیں گیا کہ اس کو نچلی سطح پر منتقلی سے کیسے روکا جائے، حکومتی اقدامات سے واضح ہورہاہے کہ یہ شدید گھبرائے ہوئے ہیں انہیں اقتدار ملتے ہی انتخابات کا اعلان کرنا چاہیے تھا اور اس وقت اگر یہ عوام کو بتاتے کہ یہ سارا کیا دھرا پی ٹی آئی حکومت کی ناقص پالیسیوں کا ہے تو ان کی بات بن جاتی مگر فی الحال یہ حکومت مزید بحرانوں میں گھرتی جارہی ہے اور اس کے پاس بچاﺅ کا کوئی راستہ نہیں جہاں تک بات نومبر میں تعیناتی ہے تو اس کے بعد صورتحال بالکل تبدیل ہوجائیگی اور یہ یقین سے نہیں کہاجاسکتا کہ صورتحال موجودہ حکومت کے حق میں ہی رہے گی۔
دوسری جانب 2011-12 میں سیاست نہیں ریاست بچاﺅ کا نعرہ لگانے والے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے نعرہ لگایاتھا اور آج انکے شدید ترین سیاسی مخالف اور انکا مذاق اڑانے والے بھی مجبوراً یہی سیاست نہیں ریاست بچاﺅ کا نعرہ اور اشرافیہ کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا نعرہ اور بیانیہ مرتب کرنے کی سعی کررہے ہیں۔
واپس کریں