دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کی معیشت کو نرم چارہ بنا کر آئی ایم ایف کی غلامی کے شکنجے کے آگے پھینکا گیا ہے
No image ہندو اور انگریز کے ٹوڈی ساہوکاروں‘ استحصالی طبقات اور جاگیرداروں کو یہ تقسیم گوارا نہیں تھی جنہوں نے ہندوستان کی تقسیم کو بادل نخواستہ قبول کرکے خود کو پاکستان کا شہری بنایا مگر انکے اذہان ہندو اور انگریز کے ودیعت کردہ استحصالی نظام کے ساتھ ہی وابستہ رہے اور انکے دل بھی اس نظام کیلئے دھڑکتے رہے۔
استحصالی نظام کی ذہنیت رکھنے والے ہندو اور انگریز کے ٹوڈیوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے پاکستان کو بانی پاکستان قائداعظم کے متعین کردہ راستوں سے ہٹانے کا عمل شروع کر دیا اور بالآخر ملک کو اس استحصالی نظام کی جانب دھکیلنے میں کامیاب ہو گئے جس سے نجات کیلئے پاکستان معرض وجود میں آیا تھا اور آج بھی ہم اسی استحصالی نظام کے شکنجے میں جکڑے نظریہ پاکستان اور قیام پاکستان کے مقاصد کو یاد کرکے بانیان پاکستان کی عظیم محنتوں کو ضائع ہوتا دیکھ کر خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔
قوم کو آج آئی ایم ایف کے ناروا قرضوں‘ ملک کے سنگین توانائی کے اور اقتصادی و مالی بحرانوں اور انکی بنیاد پر قوم کو غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کی شکل میں جن گھمبیر مسائل کا سامنا ہے‘ یہ سب ساہوکارانہ استحصالی نظام ہی کا شاخسانہ ہے جس سے ملک و قوم کو خلاصی دلانے کے ذمہ دار حکمران اشرافیہ طبقات ہی ان ساری خرابیوں کے ذمہ دار ہیں۔ آج عوام پر جس بے رحمی کے ساتھ بجلی‘ پانی‘ گیس کے بل بڑھا کر انکے زندہ رہنے کی آس تک ان سے چھینی جا رہی ہے‘ جس طرح آئی ایم ایف کے لیئے پاکستان کی معیشت کو نرم چارہ بنا کر اسکی غلامی کے شکنجے کے آگے پھینکا گیا ہے اور جس سفاکی کے ساتھ توانائی کی نجی کمپنیوں کو قومی خرانے پر ڈاکہ مارنے کی کھلی سہولت دی گئی ہے جس سے بجلی کے بل عام آدمی کے پورے مہینے کے بجٹ سے بھی تجاوز کر گئے ہیں‘ یہ سب ان استحصالی طبقات کی پالیسیوں کا ہی کیا دھرا ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے مقاصد کو شروع دن سے ہی گہنا دیا تھا اور آج بھی وہ بے بس و مجبور عوام کو زندہ درگور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔
آج ملک اور عوام کے مہنگائی کے مسائل کی سنگینی کا بلوم برگ کی حالیہ رپورٹ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق پاکستان میں مہنگائی اب بھی تمام ایشیائی ملکوں میں سب سے زیادہ ہے جبکہ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ملک میں بجلی کے بھاری بلوں کی بڑی وجہ ان پر ایف بی آر کی جانب سے لگائے گئے بالواسطہ ٹیکسز ہیں جو برقرار رہتے ہیں تو حکومت کی بجلی کے نرخ کم کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح آئی پی پیز کے ساتھ اگلے پچاس سال تک کے طے کردہ معاہدوں کی موجودگی میں بجلی کے نرخ مزید بڑھ تو سکتے ہیں مگر کم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ اس تناظر میں حکومت کو عوام کو محض لالی پاپ دینے کی بجائے استحصالی نظام سے نجات دلانے کے ٹھوس عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ قیام پاکستان کے مقاصد پورے ہونے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔
نوائے وقت کے اداریئے سے اقتباس
واپس کریں