وطن عزیز میں پھر سے قومی حکومت کی تشکیل پر بحث چھیڑی گئی ہے۔ کالم نگار ہوںیا تجزیہ کار ، سیاستدان ہوں یا ٹیکنوکریٹ، کاروباری شخصیات ہوں یا دو نمبری سے امرا کی فہرست میں نمایاں مقام حاصل کرنے والے، الغرض سب ہی کا یک زبان قومی حکومت کے قیام کا با آواز بلند نعرہ ہے۔ ان سوا دو سطور پڑھنے کےبعد یقیناً آپ کے ذہن میں سوال اٹھ رہا ہوگا کہ وہ نام تو اس فہرست میں ہے ہی نہیں جو اس کے منصوبہ ساز اور روح رواں ہیں۔
آپ کی سوچ سو فیصد درست ہے لیکن اس کا ذکر آگے چل کے آئے گا۔ ویسے جلسے، جلوس اور ریلیوں کے لیے سب سے پہلے تماشائی، عام لوگ اور نعرے لگانے والے ہی جمع ہوتے ہیں، مہمان اور مہمان خصوصی تو ماحول بننے کے بعد ہی تالیوں اور نعروںکی گونج میں پہنچا کرتے ہیں۔
8 فروری 2024 یعنی عام انتخابات سے پہلے جو بے اطمینانی، بے چینی، بے یقینی، اظطراب ، افراتفری، عدم استحکام، لڑکھڑاتی معیشت، مہنگائی، بدعنوانی، کمزور حکمرانی، جرات مندانہ فیصلوںکا فقدان، اقربا پروری، کفایت شعاری کے بجائے شاہ خرچیاں، قومی اداروں میں لوٹمار، اہل پر نااہل کو ترجیح دینے کی جو رسومات تھیں اب ان میں کہیں زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی ملکی معیشت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے، لوڈشیڈنگ ختم کرنے، بیروزگاری ختم کرنے، کشکول توڑنے کا دعویٰ، سب کو ساتھ لے کر چلنے کا عہد اور اپوزیشن کو منانے کی باتیں بس باتیں ہی رہیں۔
شہباز شریف صاحب پہلے اکثر و بیشتر ہر تقریر میں شبانہ روز شبانہ روز محنت کا ذکر کرتے ہوئے تھکتے نہیں تھے، اب تو یہ لفظ بھی انہوں نے کہنا چھوڑ دیا، شاید انہیں یقین ہوچکا ہے کہ عوام نے شبانہ کا پتہ چلا لیا ہے، شہباز شریف واحد وزیرا عظم ہیں جو صبح سویرے کام کا آغاز کر دیتے ہیں۔
اس کے باوجود 5 مہینوںمیں قوم اردو کے سفر کے بجائے صرف انگریزی کا سفر کر رہی ہے، ہم تاریکی سے نکلنے کے بجائے تاریکی میں ڈوبتے جارہے ہیں، حالات تیزی سے بد سے بدتر کی جانب گامزن ہیں۔
وزیراعظم ہوںیا وزرا سب ہی عمران فوبیا میں ملوث ہیں جو انہیں دن میں سکون دے رہا ہے اور نہ ہی رات میں راحت، سونے پہ سہاگا اس دوران یہ لوگ عمران خان کے بیانیے کا توڑ یعنی جوابی بیانیا بھی ترتیب نہ دے سکے۔ ڈیجیٹل میڈیا پر سرکاری اور نجی ٹیموںکی بھرمار کے باوجود پی ٹی آئی کے بیانیے کا توڑ تو دور کی بات اس کے قریب بھی نہیںپہنچ سکے جس کا انہیں قومی حکومت یا کسی اور نظام کی صورت میں سنگین اور ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
بمشکل تمام ایک یا دو کے سوا سب کی وزارتوں کا پہلے سے بھی برا حال ہے۔
عمران خان کی طرح شہباز شریف کی موجودہ ٹیم میں بھی ٹی 20 ٹوئنٹی اور ٹیسٹ کے لیے کئی ٹیکنوکریٹ شامل کرائے گئے، اس کے باوجود ہم آگے بڑھنے کے بجائے مسلسل پیچھے جارہے ہیں، ایک زمانے میں متوسط کہلایا جانے والا طبقہ صفحہ ہستی سے مٹ رہا ہے۔ دولت مند مزید دولت حاصل کر رہا ہے اور غریب مزید غریب ہو رہا ہے۔
ٹیم کی ہار یا جیت کا سہرا ہمیشہ کپتان کے سرجاتا ہے، سلیکشن بورڈ، کوچز یا ٹرینر شکست کا بوجھ کپتان ہی پر ڈالتے ہیں، شہباز شریف نے ماضی کے کپتانوں کی آنیاں اور جانیاں سے کچھ نہیں سیکھا۔
یاد رکھیں اہداف کے حصول میںناکامی یا شکست پر کیرئیر ہمیشہ کے لیے ختم بھی ہو جاتا ہے، معروف مثل ہے "کامیابی کے ہزار باپ ہوتے ہیں اور ناکامی اس یتیم بچے کی طرح ہوتی ہے جس کا کوئی باپ نہیں ہوتا”، میرے نزدیک حالات و واقعات تیزی سے اسی طرف بڑھ رہے ہیں وہ کہتے ہیں نا "نماز پڑھیے قبل اس کےکہ آپ کی پڑھی جائے”۔
بہرحال ملکی سیاست اور اسٹیبلشمنٹ پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے بھی ملکی مسائل کا حل قومی حکومت کی تشکیل سے وابستہ کر دیا ہے۔ قومی حکومت کی ضرورت ناگزیر کچھ اس طرحسے بنائی گئی ہے کہ حکومت ہو یا اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کوئی بھی اپنی اپنی جگہ سے ہٹنے پر تیار نہیں، اس لیے آگے بڑھنے کے لیے اس سے بہتر کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا، اس طرح سب کی عزتیں اور انا قربان ہونے سے محفوظ رہیں گی۔
ویسے اسٹیبلشمنٹ اور پیراشوٹر اینکرز و تجزیہ کاروںکی طرح پیراشوٹر سیاستدان اور نام نہاد ٹیکنوکریٹس 2012 سے ہی قومی یا ٹیکنوکریٹ حکومت کا نعرہ لگا رہے ہیں، کہتے ہیںمقتدر حلقے جو ایک بار سوچ لیںاس پر وہ عملدرآمد کرواکر ہی رہتے ہیں، بڑی کرسی پر کون آتا ہے اور کون جاتا ہے اس سے غرض نہیں منصوبہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔
پی ٹی آئی دور میں بھی 10 سال سے بھی زیادہ اقتدار کے حصول کا منصوبہ تیار ہوا جو اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اقتدار میں مناسب حصہ داری پر اختلاف کی نظر ہو گیا یہاں یہ بھی ذکر کردوں کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کی وجہ صدارتی نظام کی راہ ہموار کرنا ہی تھی۔ عمران خان کی ایک تنظیم واشنگٹن میں اکدار کے نام سے رجسٹرڈ ہے، کہتے ہیں اس کی چیئرمین شب سے بعد میں انہوںنے استعفیٰ دے دیا تھا، اس کے منشور میں واضح طور پر درج ہے کہ پاکستان میںصدارتی نظام کی کوشش کی جائے گی۔
آپ کو یاد ہوگا ماضی میں شہباز شریف بھی پانچ سال کے لیے قومی حکومت کی تشکیل کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ سہیل وڑائچ نے دو سالہ قومی حکومت کی خواہش ظاہر کی ہے، قومی حکومت کی تشکیل ہو یا صدارتی نظام یا کچھ اور اس کی مدت مختصر ہو یا طویل اب یہ بحث ضمنی ہو چکی ہے، بات تو اصل یہ ہے کہ جس شدت سے بحث دوبارہ چل پڑی ہے، لگتا ہے ماحول اس کے لیے سازگار ہو چکا ہے۔
یاد رکھیے یہ ماحول اتنی آسانی سے سازگار نہیں ہوا، اس کے لیے ریاست کے چاروں ستون انتظامیہ (حکومت)، پارلیمان، عدلیہ اور میڈیا کے ساتھ ساتھ اداروں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب اذان ہو چکی ہے اور صفیں بھی تیار کھڑی ہیں۔ بس اقامت سے پہلے موذن صفوںکے درمیان فاصلہ کم کرنے کا اعلان کرر ہا ہے کیونکہ باجماعت نماز کے لیے فاصلے کا ہونا درست تصور نہیں کیا جاتا۔
واپس کریں