امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن پاکستان کے دورے پر تھیں۔ گورنر ہاؤس لاہور میں پاکستان کی بیشتر بڑی کاروباری شخصیات کے ساتھ مکالمہ چل رہا تھا۔ ہر کوئی درخواست کر رہا تھا کہ اگر امریکا ان کے کاروبار میں مدد کرے تو وہ بہت مشکور ہوں گے۔ کسی نے کہا کہ امریکہ پاکستانی ٹیکسٹائل کا کوٹہ بڑھا دے تو کوئی کہہ رہا تھا کہ انہیں اپنے کاروبار میں وسعت کے لیے امریکی منڈیوں تک رسائی چاہیے۔
اب آخر میں انتظار تھا کہ ہیلری کلنٹن ساری گفتگو سن کر کیا یقین دہانی کراتی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے محض دو معاملات پر زور دیا کہ پاکستان اپنے ہمسائے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرلے اور اپنے ملک میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے تو آپ لوگوں کو امریکا سمیت کسی ملک کی مدد درکار نہیں ہوگی۔
پاکستان کے پاس اپنے ہمسائے سے تعلقات بہتر کرنے کا سب سے اچھا موقع 1999 میں آیا جب بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے اور دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے نوازشریف کے ساتھ لاہور اعلامیہ کا معاہدہ طے کیا مگر کارگل واقعے نے سب پانی پھیر دیا۔ واجپائی ایک بار پھر پاکستان آئے اور جنرل مشرف کے ساتھ لاہور اعلامیے سے آگے بڑھ کر مذاکرات کرنے پر تیار ہوگئے۔ مگر دوبارہ ایسے حالات بنے کے ممبئی حملوں کے بعد سب کچھ جامد ہوگیا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نواز شریف کی رہائش گاہ پر آئے تو ہم نے ایسا ہنگامہ کھڑا کیا کہ ‘مودی کا جو یار ہے غدار ہے’ کے نعرے لگا دیے۔ یعنی ہمسائے کے تعلقات بہتر کرنا ہماری ترجیحات میں نہیں۔
آئی ایم ایف سمیت تمام بین الاقوامی امدادی ادرے کسی بھی پیکیج سے قبل شرائط عائد کرتے ہیں کہ آپ اپنا ٹیکس نیٹ بڑھائیں، خسارے کم کریں، اپنے اخراجات پر قابو پائیں۔ جب ہم ان سب اقدامات پر سنی ان سنی کرتے ہیں تو امدادی اداروں کی شرائط بڑھ جاتی ہیں۔ پھر وہ آمدن بڑھانے پر زور دیتے ہیں۔ ہماری ہر حکومت کے پاس آمدن بڑھانے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کی بجائے نئے ٹیکس لگا دیں۔ بجلی چوری روکنے، ترسیل کا نظام بہتر کرنے اور بجلی کے محکموں میں کرپشن کم کرنے کی بجائے بجلی، گیس کی نرخ بڑھا دیں۔ یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ امیروں اور کاروباری افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بجائے سارا بوجھ تنخوادار اورغریب عوام پر ڈال دیں۔
ہمارے عوام ایک حکومت کے ظالمانہ معاشی فیصلوں سے جان چھڑانے کے لیے بڑے بڑے تبدیلی لانے اور غربت ختم کرنے کے نعرے لگانے والے سیاستدانوں کو ووٹ دیتے ہیں تو وہ اقتدار میں آکر پھر آئی ایم ایف اور دیگر عالمی امدادی اداروں کے چنگل میں پھنسا دیتے ہیں۔ ہر نئی حکومت عوام کو نئے دلاسے تو دیتی ہے مگر اپنی پرانی ڈگر کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔
بھارت سے تعلقات ٹھیک نہیں ہوئے مگر ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات بگاڑ لیے۔ ہماری سفارت کاری میں کاروبار کا عنصر نظر ہی نہیں آتا۔ غیروں کی جنگوں کا حصہ بنتے رہے اور اس کے عوض معاوضے ملتے رہے اور ہمارا کام چلتا رہا۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔ جنگیں ختم ہوگئیں۔ دوست ممالک مالی مدد کرنے کو تیار نہیں کیونکہ ان پر بھی عالمی امدادی اداروں کا دباؤ ہے کہ جب تک پاکستان ان کی شرائط نہیں مان لیتا وہ بھی کسی صورت پاکستان کو امداد نہ دیں۔ عالمی اداروں کی شرائط کڑی سے کڑی ہوتی گئیں اور عوام کی زندگی مشکل سے مشکل تر کردی۔ جبکہ اشرافیہ اپنی پرانی ڈگر پر قائم ہے اور اپنی عیاشیاں کم کرنے کو بالکل تیار نہیں۔
پاکستان برآمدات بڑھانے کی بجائے درآمدات پر انحصار کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ کاروبار شروع کرنے میں رکاوٹیں دور کرنے اور مقامی سرمایہ کاری کو فروغ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوگیا۔ دنیا بھر میں چھوٹے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے سرکاری ادارے ہر قسم کی مدد کرنے کو تیار ہوتے ہیں اور یہاں انہی سب اداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسی رکاوٹیں ڈالیں کہ عوام کو ہرممکن کاروبار سے دور رکھا جائے۔ جو کاروباری افراد سرکار میں اثرورسوخ رکھتے ہیں اور طاقتور حلقوں کے قریب ہیں ان کے لیے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ یہی لوگ ہر قسم کی چھوٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہیں۔
آج مایوسی کا عالم ہے۔ خزانہ خالی ہے۔ عوام کو ریلیف دینے کی سکت نہیں۔ مگر ہر سیاسی رہنماء اقتدار میں آنا اور رہنا چاہتا ہے۔ مہنگائی میں پسےعوام قربانیاں دے کر حکومت اور عسکری اداروں کو پال رہے ہیں۔ ان دگرگوں حالات میں بھی تجربات کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ نوجوان ناامید ہوکر جوق در جوق ملک چھوڑ رہے ہیں۔ کاروباری افراد مقامی سرمایہ کاری کی بجائے بیرون ملک سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ایک مغربی سفارت کار نے کہا کہ جب تک آپ مقامی سرمایہ کاروں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری پر راغب نہیں کریں گے کوئی غیر ملکی کیونکر پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر راضی ہوگا۔ ہمیشہ سے ملک کے کرتا دھرتا جن کا دعویٰ ہے کہ ان سے زیادہ وفادار کوئی نہیں اور ہرکام ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا کیا کبھی وہ سوچیں گے کہ ملک تنہائی کا شکار ہوکر بند گلی میں کیسے پہنچ گیا؟
واپس کریں