خان صاحب نے ایک اور چال چل کر، بقول ان کے مداحوں کے ایک اور ٹرمپ کارڈ کھیل کر سب کو حیران کر دیا ہے۔ یہ ٹرمپ کارڈ دراصل اعتراف کارڈ ہے یعنی انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ 9 مئی کو فوجی عمارات کے سامنے مظاہروں کی کال انہوں نے بھی دی تھی۔
اب تک کا ان کا ٹرمپ کارڈ یہ تھا کہ 9 مئی کو کیا ہوا، مجھے کیا پتہ، میں تو جیل میں تھا، میرے پیچھے یہ سب کچھ ہوا۔ کل عدالت میں پیشی پر صحافیوں کو انہوں نے بتایا کہ یہ میں ہی تھا جس کے حکم پر مظاہرے ہوئے۔ گویا اب وہ ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ والا مستند دعویٰ تو یعنی کہ واپس لے لیا گیا، یہ کہ سب کچھ فوج نے کروایا، الزام مجھ پر دھر دیا جبکہ میں تو جیل میں تھا۔ جب خان صاحب نے یہ فالس فلیگ آپریشن کا دعویٰ کیا تھا تو ان کے مداحین نے خوب اظہار مسرّت کیا تھا کہ دیکھا، کیسے ماسٹر کارڈ کھیل کر خان نے دشمنوں کی بازی انہی پر اْلٹ دی۔ خیر سییہ مداحین خان صاحب کے نئے ٹرمپ کارڈ کی بھی تعریفیں کر رہے ہیں لیکن یہ سمجھنے میں انہیں بھی مشکل ہو رہی ہے کہ خان صاحب نے جو بازی دشمنوں پر پلٹی تھی، اس کا کیا بنے گا۔
خان صاحب سے منسوب یہ فقرہ بھی کافی مشہور رہا اور خان صاحب کی تعریفیں بھی بہت خوب ہوئیں کہ میرا کیا ہے، میں تمام عمر جیل میں رہنے کیلئے تیار ہوں لیکن میرے کارکنوں کو چھوڑ دو۔
اب خاں صاحب کے نئے اعترافی بیان کا مطلب کچھ اور ہے۔ یہ کہ مجھے چھوڑ دو، میرے کارکنوں کو پکڑ لو۔ اس لئے کہ میں نے تو پرامن احتجاج کی کال دی تھی، کارکن چڑھ دوڑے تو ان کا قصور ہے۔ انہیں پکڑو، مجھے کیوں پکڑ رکھا ہے۔
یعنی خان صاحب نے دو الگ الگ بیانات میں دو الگ الگ مطالبات کئے ہیں۔ پہلا یہ کہ مجھے عمر بھر قید میں رکھو، دوسرا یہ کہ میرے کارکنوں کو پکڑ لو۔
واقفانِ حالاتِ اندرونی بتاتے ہیں کہ خان صاحب کے یہ دونوں مطالبات اعلیٰ سطح والوں نے منظور کر لئے ہیں۔ یعنی وہ بھی عمر بھر جیل میں رکھے جائیں گے اور ان کے 9 مئی والے کارکن بھی پکڑ لئے جائیں گے۔ وہ کارکن جو ابھی تک پکڑے نہیں گئے، ان کی بات ہو رہی ہے۔
خاں کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے دونوں مطالبات مان لئے گئے ہیں۔ ایسی خوش قسمتی ہر سیاستدان کے حصے میں نہیں آتی۔
ایک مزے دار واقعہ اسی اعترافی بیان کے حوالے سے الگ سے پیش آیا۔ جب خان صاحب یہ بیان دے چکے تو پی ایچ ڈی کی اصلی مگر خفیہ ڈگری رکھنے والے ڈاکٹر بابر اعوان پریشان ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب غیر معمولی آدمی ہیں۔ ان کی ڈگری ہی کو دیکھ لیجئے، جس یونیورسٹی سے انہوں نے یہ ڈگری لی، اس نے پی ایچ ڈی کی کوئی اور ڈگری کسی اور کو نہیں دی، نہ ڈاکٹر صاحب سے پہلے کسی کو دی، نہ اس کے بعد تادم تحریر کسی کو دی۔ یعنی کائنات میں ڈاکٹر بابر اعوان واحد ہستی ہیں جو اس یونیورسٹی سے یہ ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ اعزاز پاکستان کیلئے باعث فخر ہے۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
خیر، بابر اعوان مشوش ہوئے ، یعنی تشویش زدہ ہو گئے اور خان صاحب کو الگ لے گئے۔ اور کچھ کہا۔ بظاہر یہی کہا ہو گا کہ خان صاحب یہ آپ نے کیا کر ڈالا۔ یہ تو غضب ہو جائے گا۔ فوراً یہ اعتراف واپس لیں۔ چنانچہ پھر ہردو بلند پایہ شخصیات اخبار نویسوں کے پاس آئیں اور خان صاحب نے کہا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے جو کہا ،اس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ اسے نظرانداز کریں، جو بات اب کہوں گا، اسے نوٹ کریں۔
صحافیوں نے جواب دیا، آپ نے جو کہا تھا، وہ تو ہم نوٹ کر چکے۔ لہجہ یوں تھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ لکھا ہوا مال واپس نہیں ہو گا۔
اس کے بعد ہر دو بلند پایہ چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ نوٹ کیا گیا فقرہ پھر ٹی وی پر بھی چلا، اخباروں میں بھی چھپا۔
خان صاحب نے دی ٹائمز کو انٹرویو میں اپنا یہ دعویٰ دہرایا کہ انہیں ڈیتھ سیل اور قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ اسی قید تنہائی میں وہ روزانہ محض درجن بھر ملاقاتیوں سے ملتے، انہیں گائیڈ لائن دیتے اور ٹویٹ کرنے کی ہدایات جاری کرتے ہیں۔
متعلقہ حکام اور باخبر صحافیوں کی طرف سے بعدازاں بتایا گیا کہ خان صاحب کو جیل کے جس زون میں رکھا گیا ہے، اس میں سرے سے کوئی ڈیتھ سیل ہے ہی نہیں۔ لیکن بھئی ہم ان وضاحتوں کو کیوں مانیں۔ ہم تو صادق امین قرار دئیے گئے اور مامور من اللہ ہستی خان صاحب کی بات مانیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ڈیتھ سیل ہے تو ڈیتھ سیل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ قید تنہائی ہے تو قید تنہائی ہے۔
خیر، اچھی بات یہ ہوئی کہ حکام بالا نے ان کا شکوہ دور کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور خبر یہ ہے کہ اگلے ماہ، کسی وقت انہیں ڈیتھ سیل سے نکال کر لاہور کی کسی جیل کے عام سیل میں منتقل کیا جائے گا۔ ڈیتھ سیل والی شکایت ختم ہو جائے گی۔ اور کئی کمروں پر مشتمل ڈیتھ سیل کے بجائے دوسرے قیدیوں والا سیل دیا جائے گا تو قید تنہائی بھی نہیں رہے گی۔ قید تنہائی میں گارڈین، ٹائمز سمیت درجنوں اخبارات اور چینلز کو انٹرویو دینے کی مصیبت بھی ہوتی ہے۔ قید تنہائی نہ رہے تو یہ بھی نہیں رہے گا یعنی ان اخبار نویسوں نے خان کی کمزور جان کو جس عذاب میں آئے روز انٹرویو کر کر کے مبتلا کر رکھا ہے، اس سے بھی ریلیف مل جائے گا، دیسی بکرے، مرغ، مکھن، پنیر ، انڈے، رائتہ ، یخنی ، سوپ، تازہ اور خشک پھلوں کی سہولیات کے بارے میں ابھی پتہ نہیں کہ قید تنہائی کے خاتمے کے بعد ان کا کیا بنے گا۔
کوئی مسئلہ نہیں، اگلے ماہ یہ قانونی ابہام بھی دور ہو جائے گا۔
آئی ایس پی آر نے شکوہ کیا ہے کہ عدالتی نظام 9 مئی کے منصوبہ سازوں کی سہولت کاری کر رہا ہے۔
یادش بخیر، ایک چیف جسٹس یاد آ گئے۔ وہ 9 مئی کے آتنک واد کے مہاتما کو دیکھ کر ادب سے کھڑے ہو گئے تھے اور گڈٹو سی یو good to see you کہہ کر ان کا استقبال کیا تھا اور پھر یہ حکم جاری فرمایا تھا کہ مہنگی ترین سرکاری گاڑی مرسیڈیز لائی جائے تاکہ مہاتما کو ریسٹ ہا?س میں تشریف فرما کیا جا سکے۔ سرکاری مہمان خانے کو حکم ہوا کہ مہاتما اور ان کے جتنے بھی کرم چاری آئیں ، سب کو وہی کچھ کھانے کو دیا جائے جس کی وہ فرمائش کریں۔ پھر ایسا ہی ہوا۔
وہ چیف جسٹس تو چلے گئے لیکن ان کی ’’آتما‘‘ اب بھی ایوان عدل میں بسیرا کئے ہوئے ہے۔
واپس کریں