خیبر پختونخوا سے طالبان بھتے کی مد میں اربوں روپے وصول کر رہے ہیں
عمیر محمد زئی۔خفیہ اداروں اور مقامی صحافیوں کے مطابق شدت پسند منشیات کا کاروبار کرنے والے بڑے ڈیلروں سے 20 سے 30 فیصد حصہ وصول کرتے ہیں۔ ایک خفیہ ادارے کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کچھ عرصہ قبل طالبان نے ایک کلو چرس پر 5 ہزار روپے کا ٹیکس عائد کیا تھا۔خیبر پختونخوا میں فعال تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی طرف سے مبینہ طور پر ماہانہ کی بنیاد پر اربوں روپے بھتہ وصولی کا انکشاف ہوا ہے۔ ضلع خیبرجو کہ منشیات پیدا کرنے کے حوالے سے مشہور ہے، وہاں پر طالبان نے ایک کلو چرس پر 5 ہزار روپے کا ٹیکس عائد کیا ہے۔ یہ پیسے پاکستانی طالبان اور افغانستان میں رہائش پذیر شدت پسند گروہوں کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ چونکہ طالبان یہ پیسے نقد وصول کرتے ہیں اس لئے خفیہ اداروں اور فورسز کے پاس اس کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ نہیں ہے۔
انٹیلی جنس اداروں کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضم اضلاع (سابقہ فاٹا) خاص طور پر شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، ایف آر لکی، جنوبی اضلاع میں لکی مروت کے بعض علاقوں، ڈی آئی خان، بنوں، ضلع مہمند اور باجوڑ میں جتنے بھی سرکاری ٹھیکیدار ہیں وہ ماہانہ کی بنیاد پر یا ٹھیکے کے حساب سے طالبان کو 5 سے لے کر 15 فیصد تک پیسے دیتے ہیں اور اگر کوئی ٹھیکیدار یہ خود ساختہ ٹیکس ادا نہیں کرتا تو اس کیلئے علاقے میں کام کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کے اعلیٰ ذرائع کہتے ہیں کہ مذکورہ علاقوں میں صوبائی اور وفاقی حکومت کے اربوں روپے کے منصوبے چل رہے ہیں اور ان منصوبوں پر کام کرنے والے عملے کو مکمل سکیورٹی فراہم نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹھیکیداروں نے اس کا آسان حل یہ نکال لیا ہے کہ وہ مقامی طالبان کمانڈروں سے رابطہ کر کے معاملات حل کر لیتے ہیں۔ اسی طرح شمالی وزیرستان میں چلغوزے کی پیداوار سے بھی طالبان کو کافی آمدن ہوتی ہے۔
ضلع مہمند اور ضلع باجوڑ جہاں پر معدنیات اور قیمتی پتھروں کا کاروبار ہوتا ہے اور اندازہ ہے کہ اس کی مالیت اربوں روپے ماہانہ ہے، ان علاقوں میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے دو سابق ڈسٹرکٹ پولیس افسران (ڈی پی او) نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے پاس مصدقہ معلومات آتی تھیں کہ علاقے میں سرگرم شدت پسند گروہ اس کاروبار سے وابستہ افراد سے مبینہ طور پر بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ماہانہ کی بنیاد پر یہ پیسے طالبان کو دیے جاتے ہیں جو کروڑوں اور بعض اوقات اربوں روپے تک ہوتے ہیں۔
اسی طرح ضلع خیبر (خیبر ایجنسی) جو کہ منشیات کیلئے مشہور ہے اور یہاں پر بڑے پیمانے پر افیون اور چرس کی کاشت کی جاتی ہے، بھی طالبان کیلئے سونے کی چڑیا ہے۔ خفیہ ادارے اور مقامی صحافی اس بات پر متفق ہیں کہ جتنی آمدنی طالبان کو اس ضلع سے ہوتی ہے شاید ہی کسی دوسرے علاقے سے ہوتی ہو۔ ان کے مطابق شدت پسند منشیات کا کاروبار کرنے والے بڑے ڈیلروں سے 20 سے 30 فیصد حصہ وصول کرتے ہیں۔ ایک خفیہ ادارے کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کچھ عرصہ قبل طالبان نے ایک کلو چرس پر 5 ہزار روپے کا ٹیکس عائد کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ منشیات کا بڑا حصہ افغانستان سے آتا ہے چونکہ سرحدی علاقوں میں طالبان کا کنٹرول ہے اس لئے ان کی اجازت کے بغیر منشیات کی سمگلنگ نہیں کی جا سکتی بلکہ طالبان باقاعدہ منشیات کی حفاظت کرتے ہیں۔
کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے ایک عہدیدار نے اس ضمن میں بتایا کہ کچھ عرصہ قبل انہیں ڈی آئی خان میں سرگرم ایک شدت پسند گروہ (غٹ حاجی گروپ) کے بھتے کے بارے جو معلومات ملیں تو وہ ہکا بکا رہ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ اس گروہ نے دو سالوں کے دوران 25 ہزار ملین روپے کا بھتہ لیا تھا۔ ان اطلاعات پر انہوں نے ضلع میں متعدد کارروائیاں کیں اور گروہ کے متعدد کارندوں کو گرفتار کیا تاہم جب تفتیش کے بعد انہیں عدالت میں پیش کیا گیا تو پہلی پیشی پر ہی ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کے بجائے سارے ملزمان کو رہا کر دیا گیا کیونکہ طالبان نے متعلقہ عدالتی عملے کو دھمکی دی تھی کہ اگر ان کے ساتھیوں کو فوری طور پر رہا نہیں کیا گیا تو ان کے قریبی رشتہ داروں کو نقصان پہنچائیں گے۔
خفیہ ادارے کے ایک اور افسر نے بتایا کہ بنوں اور ڈی آئی خان میں انہوں نے دو تاجروں کو حراست میں لیا تو پتہ چلا کہ انہوں نے اپنی کمپنیوں کے نام پر اربوں روپے کی ادویات اور الیکٹرانک سامان افغانستان بھیجا ہے اور انہیں بھیجنے والے سامان کی رقم کی ادائیگی ایک گروہ نے پاکستان میں کی تھی۔
اقوام متحدہ نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستانی طالبان کی محفوظ آماجگاہ ہے اور وہاں پر تقریباً 6 ہزار سے زائد شدت پسند یا ان کے خاندان کے افراد رہائش پذیر ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان ہزاروں افراد کی معاشی دیکھ بھال ٹی ٹی پی کی ذمہ داری ہے جو وہ بھتے کی رقم سے پوری کرتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ ایکسائز اینڈ نارکوٹکس کنٹرول کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق ضلع خیبر میں جب منشیات سے وابستہ افراد کے خلاف انہوں نے پولیس کے ساتھ مل کر کارروائیاں کی تو طالبان نے باقاعدہ نام لے کر اہلکاروں کو دھمکیاں دیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک طرف حکومت کی جانب سے اس ضلع میں منشیات کی روک تھام کیلئے بنیادی سہولیات کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا تھا تو دوسری طرف شدت پسندوں کی دھمکیاں تھیں اس لئے محکمہ نے اس علاقے میں اپنا سیٹ اپ بہت محدود بلکہ ختم کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ضلع کرم، شمالی و جنوبی وزیرستان، ڈی آئی خان، مہمند اور باجوڑ کے مختلف راستوں کے ذریعے منشیات اور دیگر سامان سمگل کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کچھ ہفتے قبل ڈی آئی خان میں کسٹم کے متعدد اہلکاروں کو فائرنگ کر کے شہید کیا گیا تھا جس کے بعد اس روٹ پر سمگلنگ رات کے وقت انتہائی آسان ہو گئی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین نے بتایا کہ سابقہ حکومت میں 35 ہزار کے قریب شدت پسندوں کو خیبر پختونخوا میں لا کر آباد کیا گیا اور ان میں کئی ایسے تھے جو اے این پی قیادت پر 2 درجن سے زائد حملوں میں ملوث تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اسی وجہ سے آج جنوبی اضلاع میں طالبان سرگرم ہو گئے ہیں اور بڑے منظم طریقے سے لوگوں سے بھتہ وصول کر رہے ہیں لیکن حکومت اس طرف کوئی دھیان نہیں دے رہی۔ انہوں نے کہا کہ اگر نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کیا جاتا تو نئے آپریشن کی ضرورت نہ پڑتی۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ موجودہ حکومت امریکی خواہش پر دوبارہ خیبر پختونخوا میں ملٹری آپریشن کی بات کر رہی ہے جس کی ہم کسی بھی صورت اجازت نہیں دیں گے۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ضلع میں 400 کے قریب معدنیات اور ماربل کے کارخانے ہیں۔ مقامی ذرائع کہتے ہیں کہ ان کارخانوں کے مالکان کی اکثریت ٹی ٹی پی کو پیسے دیتی ہے اور حال ہی میں جب ایک کارخانے کے مالک نے پیسے دینے سے انکار کیا تو اگلے ان کے کارخانے کو بم سے اڑا دیا گیا اور مالک پر پابندی بھی عائد کی گئی کہ وہ اپنے نئے تعمیر ہونے والے گھر میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح گذشتہ دنوں شمالی وزیرستان کی ایک سوشل ویلفیئر تنظیم کے مشران نے جب طالبان کو بھتہ دینے سے انکار کیا تو ان کے زیر تعمیر سکول کو تباہ کر دیا گیا۔
دہشت گردی کے واقعات پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی رسول داوڑ کے مطابق شمالی وزیرستان میں اربوں روپے کا چلغوزہ پیدا ہوتا ہے اور اس کی آمدنی کا بڑا حصہ طالبان کو جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کام روزانہ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور طالبان کو دی جانے والی رقم کروڑوں روپے میں ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ایسی مصدقہ معلومات ہیں کہ جنوبی اضلاع، پشاور، مردان سمیت کئی دیگر اضلاع میں ایسی سیاسی شخصیات اور کاروباری لوگ طالبان کو بھتہ دیتے ہیں لیکن ان کے نام منظرعام پر نہیں آتے۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ علاقوں میں طالبان مخیر لوگوں سے بھی بھتہ لیتے ہیں اور ایسے بہت کم لوگ آپ کو ملیں گے جن کے پاس پیسے ہوں لیکن انہوں نے بھتے کی رقم ادا نہ کی ہو۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی گذشتہ روز الزام عائد کیا تھا کہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر طالبان کو 15 فیصد بھتہ دیا جا رہا ہے۔
واپس کریں