دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وہ دیواروں پہ لکھا نہیں پڑھتے۔ پاکستان میں پارٹیوں پر پابندی کی تاریخ
No image (تحریر ۔حسن مجتبیٰ )یحییٰ خانی فوجی جنتا نے عوامی لیگ کی اکثریت ماننے سے انکار کر دیا اور شیخ مجیب کو گرفتار کر کے ان کی پارٹی کو کالعدم قرار دے دیا۔ پھر آپ نے دیکھا کہ کیا ہوا۔ بنگالی آزاد ہوئے اور غازی جیل سدھارے۔ اور اب عمران خان اور ان کی پارٹی کی باری ہے۔ سچ ہے کہ وہ دیواروں پر لکھی تحریریں نہیں پڑھتے۔پاکستان کے قیام کے چند برس بعد جس پہلی سیاسی پارٹی پر پابندی لگی تھی وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان تھی جس پر شاید 1954 میں پابندی لگی۔ لیکن یہ پارٹی 1988 تک زیر زمین رہ کر اپنا کام کرتی رہی تھی۔ اس کے تین کانگرس بھی ہوئے تھے۔ تیسرے کانگرس اور سابقہ سوویت یونین اور اس کے حلیف بلاک کے زوال کے بعد یہ پارٹی بھی فطری طرح فوت ہو گئی۔ شاید اب بھی اپنا نظریاتی ٹھرک پورا کرنے کو کام کرتی ہو۔
ذوالفقار علی بھٹو جب ایوب خان کی کابینہ سے الگ ہوئے تو ان کا پہلا سیاسی بیان جو انہوں نے راولپنڈی سے جاری کیا وہ یہ تھا کہ کمیونسٹ پارٹی پر سے پابندی اٹھا لی جائے۔ ان کے اس بیان کو دیکھ کر پاکستان میں بائیں بازو اور سوشلسٹ خیالات رکھنے کے حامل سینکڑوں لوگ ان کی نئی قائم کردہ پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے لگے اور ان کا مقبول عام نعرہ 'روٹی، کپڑا اور مکان' دراصل حبیب جالب کی ایک نظم کی ہی سطر تھا۔
پھر اقتدار میں آتے ہی بھٹو نے اپنے بائیں بازو کے کئی ساتھیوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
1959 میں اور پھر 1964 میں ڈکٹیٹر ایوب خان کی حکومت نے جماعت اسلامی پر پابندی لگائی تھی۔ اس سے قبل اس پارٹی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی جس کو بعد میں معاف کر دیا گیا تھا۔
لاہور ہائیکورٹ کے بینچ نے جس کے سربراہ جسٹس وحید الدین احمد تھے (جسٹس وجیہہ الدین احمد کے والد)، جماعت اسلامی پر سے پابندی ہٹائے جانے کا حکم دیا تھا۔
یہ بھی دہراتا چلوں کہ اس وقت بھی ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں میں جماعت اسلامی واحد سیاسی پارٹی ہے جس کے اندر باقاعدہ امیر سے لے کر تمام عہدوں پر جمہوری انداز میں انتخابات ہوتے ہیں۔ جبکہ دیگر تمام پارٹیاں بشمول پاکستان پیپلز پارٹی موروثی ہیں یا پھر سلیکشن کیا کرتی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی نیشنل عوامی پارٹی یا نعپ بن کر ابھری جو بائیں بازو، قومپرست، سوشلسٹ، کمیونسٹ، لبرل، شہری آزادیوں کے علمبرداروں اور کئی مذہبی سوچ رکھنے والوں کی پارٹی تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی بعد میں نعپ بھاشانی اور نعپ غفار خان میں تقسیم ہوئی لیکن یہ ایک وسیع پارٹی تھی۔ یہ بھی بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ نیشنل عوامی پارٹی قائم ہونے کا ابتدائی اعلان نواب شاہ اور سانگھڑ اضلاع کے درمیان ایک چھوٹے سے شہر سرھاڑی میں منعقد تاریخی ہاری یا کسان کانفرنس میں ہوا تھا جس میں شاید باچا خان عبدالغفار شریک تھے۔ لیکن اس میں نعپ کے بعد میں بننے والے سیکرٹری جنرل محمودالحق عثمانی تو یقیناً شریک تھے۔
1970 کے انتخابات میں نعپ اس وقت کے صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں اچھی خاصی اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی اور پھر حکومتیں بنانے کو اس نے جمعیت علمائے اسلام (مفتی محمود گروپ) سے اتحاد کرتے ہوئے مخلوط حکومت بنائی تھی۔ صوبہ سرحد میں نعپ کے ارباب سکندر خان خلیل گورنر اور مفتی محمود وزیر اعلیٰ بنے جبکہ بلوچستان میں نعپ کے ہی عطاء اللہ مینگل وزیر اعلیٰ اور میر غوث بخش بزنجو گورنر بنے۔ مرکز، صوبہ سندھ اور پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتیں بنیں اور ذوالفقار علی بھٹو پہلے صدر، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پھر وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو تو یحییٰ خان کے تحت کچھ دن نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ بھی بنے تھے۔
1975 میں صوبہ سرحد میں پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر حیات محمد خان شیر پاؤ کے قتل کے بعد نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف وفاقی حکومت نے اس وقت کے چیف جسٹس حمود الرحمان کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجا اور نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔ اس سے قبل نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ خان عبدالولی خان، خیر بخش مری، عطاء اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو سمیت کئی نعپ لیڈر اور کارکن گرفتار ہوئے جن پر بعد میں حیدر آباد سینٹرل جیل میں حیدرآباد سازش کیس کے نام سے مقدمہ چلایا گیا تھا۔ ان میں نعپ سے باہر بھٹو حکومت مخالف یہاں تک کہ ولی خان کے وکیل تک شامل تھے جن میں مشتاق راج، حسن حمیدی اور رسول بخش پلیجو شامل تھے جبکہ غیر نعپ لوگوں میں نجم سیٹھی، معراج محمد خان، اظہر جمیل اور میر علی بخش تالپور (فریال تالپور کے سسر) بھی شامل تھے۔
بلوچستان میں نعپ کی حکومت برطرف کر دی گئی اور یہاں فوجی آپریشن شرع کر دیا گیا۔ احتجاج میں اس وقت سرحد میں نعپ اور جے یو آئی کے وزیر اعلیٰ مفتی محمود اور گورنر ارباب سکندر خان خلیل نے استعفے دے دیے۔
سابق مشرقی پاکستان میں 1970 کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی پارٹی عوامی لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر آئی تھی لیکن یحییٰ خانی فوجی جنتا نے ان کی اکثریت ماننے اور انہیں حکومت بنانے کی دعوت دینے کے بجائے مشرقی پاکستان پر فوج کشی کے ذریعے بنگالی عوام کی نسل کشی شروع کر دی۔ شیخ مجیب کو گرفتار کر کے ان کی پارٹی عوامی لیگ کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔
پھر آپ نے دیکھا کہ کیا ہوا۔ بنگالی آزاد ہوئے اور غازی جیل سدھارے۔ اور اب پھر عمران خان اور ان کی پارٹی۔۔۔ وہ دیواروں پر لکھی تحریریں نہیں پڑھتے۔
بشکریہ۔نیا دور
واپس کریں