دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایک لاکھ 86 ہزار۔عبداللہ طارق سہیل
No image سابق صدر ٹرمپ یقینی موت سے بچ نکلے۔ گولی کان چھید کر نکل گئی، ایک دو سینٹی میٹر ادھر ہو جاتی تو نشانہ باز نے کامیاب ہو جانا تھا۔ حملہ پنسلو انیا میں ہوا جہاں وہ انتخابی جلسہ سے خطاب کر رہے تھے۔ حملے کے فوری بعد سوشل میڈیا پر ردّعمل پر تھا کہ ڈرامہ سٹیج کیا گیا۔ ڈرامے میں یا تو ہوائی فائرنگ ہوتی ہے یا کسی دوسرے آدمی کی قربانی دی جاتی ہے۔ ایک صورت یہ ہے کہ ٹانگ پر گولی مروا لی جائے۔ دنیا میں ایسا کوئی شارپ شوٹر نہیں جو یہ یقینی وعدہ کرے کہ گولی بس کان پر ہی لگے گی، اِدھر اْدھر نہیں ہو گی اور دنیا میں ایسا کوئی ’’ڈرامہ باز‘‘ بھی نہیں جو شارپ شوٹر کی اس یقین دہانی پر اعتماد کر لے کہ فکر نہ کرو، تمہیں کچھ نہیں ہو گا، بس کان اڑ جائے گا۔
ایک دن پہلے تک یہ فضا تھی کہ ٹرمپ کی مقبولیت میں 6 سے 7 فیصد تک کمی واقع ہو چکی تھی اور وہ الیکشن ہار رہے تھے۔ ان کا عشق معاشقے کا سکینڈل آیا تھا جس پر ان کی مقبولیت گر گئی لیکن اس قاتلانہ حملے سے ان کی عوامی پسندیدگی پھر سے بڑھ گئی ہے اور ان کے حامی یہ کہہ رہے ہیں کہ نومبر میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں ٹرمپ کی جیت یقینی ہے۔
مقابلہ اب بھی سخت ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی اب بھی الیکشن جیت سکتی ہے اگر موجودہ امریکی صدر بائیڈن مقابلے سے دستبردار ہو جائیں گے۔ ٹرمپ کی شہرت جوکر اور قانون شکن کی ہے جبکہ جوبائیڈن مجسّم ابلیس کے نام سے مشہور ہے۔ اسرائیل کی اندھا دھند حمایت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی حوصلہ افزائی نے بھی بائیڈن کی مقبولیت متاثر کی ہے۔
ڈیموکریٹ مجسّم ابلیس کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ان کے الیکشن جیتنے کا امکان ہے ورنہ ہار پکّی۔
قاتلانہ حملہ دنیا بھر کی بڑی خبر بنا…ہمارے ہاں میڈیا پر ’’پراجیکٹ عمران‘‘ کے تحت بٹھائے گئے اینکر پرسنز نے فوراً ہی پروگرام کر ڈالے کہ ٹرمپ بھی گریٹ خان کی طرح بہادر ہے۔ اس نے بھی قاتلانہ حملے کے بعد گریٹ خان کی طرح ہوا میں مکّہ لہرایا۔
خان نے مکّہ ٹرک پر نہیں لہرایا تھا، کئی گھنٹے بعد ہسپتال میں صحافیوں کو دیکھ کر مکّے کا نشان بنایا تھا۔ ٹرمپ بہادر ہے، اسی لئے اس نے کسی جلسے یا انتخابی پروگرام کو منسوخ کرنے کا اعلان نہیں کیا اور ان کی انتخابی مہم جاری ہے۔ اس کے برعکس خان نے فوراً ہی اپنا مارچ ملتوی کر دیا جو دوبارہ آج تک نہ ہو سکا۔ اور یہ تو کچھ بھی نہیں، خان نے خود کو زمان پارک میں محصور کر لیا۔ عشاق کو مکھڑا تک دکھانے سے انکار کر دیا۔ یہ پردہ نشینی عدالت میں پیشی کے موقع پر بھی جاری رہتی یعنی موصوف بالٹی اوڑھ کر پیش ہوتے۔ گھونگھٹ نہیں کھولوں گی قاضی تیرے آگے والا سماں پیدا ہو جاتا۔
یہ ’’سحر‘‘ 9 مئی کو اس وقت ٹوٹا جب آپ کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی تھی۔ آپ ایک ٹانگ سے ’’معذور‘‘ بھی ہو چکے تھے چنانچہ وھیل چیئر پر بالٹی اوڑھے تشریف فرما تھے کہ گرفتاری کرنے والی ٹیم آ گئی۔ ایک اہلکار نے گردن پیار سے تھپ تھپائی اور بالٹی اتار کر ایک طرف رکھ دی۔ دوسرے صاحب نے وہیل چیئر سے اٹھنے کا اشارہ کیا اور گردن پر دھول رسید کی، موصوف ایک دم کھڑے ہو گئے بلکہ دوڑنے لگے، ہر طرف معجزہ ہو گیا، کرامت ہو گئی، چمتکار ہو گیا کا غل مچا اور خان صاحب خرّاٹے بھرتے پولیس جیپ میں جا بیٹھے۔ پردہ نشینی کا سلسلہ بصورت دگر اب بھی جاری ہے۔
اگر سابق صدر ٹرمپ بھی پردہ نشین ہو جاتے ہیں اور کم از کم 5 مہینے کسی کے سامنے مکھڑا کشائی نہیں کرتے اور اس دوران ایک عدد بالٹی کو بھی اوڑھنا شروع کر دیتے ہیں، تب تک انہیں خان کی طرح بہادر ماننے میں تامّل ہی رہے گا۔ نیز یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ٹرمپ کے حامی کوئی 9 مئی کرتے ہیں یا نہیں۔
غزہ میں کتنے شہری اب تک مارے جا چکے؟۔ سرکاری اعداد و شمار 40 ہزار کے اوپر نیچے کے ہیں لیکن غزہ کے تمام میڈیکل ذرائع ، ہسپتال، امدادی کارکن، دوسرے پیرامیڈکس جو گنتی بتاتے ہیں ، وہ بظاہر ناقابل یقین ہے۔
ان کا اصرار ہے کہ اب تک (آج سے 6 روز پہلے) غزہ میں مارے جانے والے شہریوں کی تعداد ایک لاکھ 86 ہزار سے زیادہ ہے۔ اور تین لاکھ زخمی ہیں۔ یعنی 25 فیصد آبادی غزہ کی ٹھکانے لگ چکی۔ سرکاری اعداد و شمار اس لئے قابل اعتبار نہیں ہیں کہ غزہ میں کوئی سرکار بچی ہی کہاں ہے۔ غزہ کی سول اتھارٹی کا سارا نظام اکھاڑ پھینکا گیا ہے۔ حماس کی قیادت تتر بتر ہے۔ میدان جنگ میں صرف ’’القسّام‘‘ بریگیڈ ہے جو ظاہر ہے کہ میدان جنگ میں ہے، اعداد و شمار کہاں سے اکٹھا کرے گا۔
ایک عالمی رپورٹ کے مطابق غزہ میں ہاتھ پائوں کٹے بچوں کی تعداد دنیا کے کسی بھی ملک سے یا ہر ملک سے زیادہ ہے۔ کسی بھی اور جنگ میں، اتنے محدود علاقے اور اتنی محدود آبادی میں اتنے زیادہ بچوں کے ہاتھ پائوں نہیں کٹے جتنے غزہ میں کٹے۔ ایک تین سال کی بچی کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی گئیں، گھٹنوں کے اوپر تک اور اس کے گھر یا رشتہ داروں میں سے کوئی زندہ نہیں بچا۔ زندگی کا سفر، اگر بچ گئی، یہ بچی اکیلی ہی کاٹے گی، ایسی اکیلی کہ ٹانگیں بھی ساتھ نہیں۔ ایک بچہ جس کے دونوں ہاتھ کاٹ دئیے گئے تھے، ایک مہینے بعد بم کا نشانہ بن کر اس عذاب سے بچ گیا جو اس کی قسمت میں لکھا جا چکا تھا۔
خلیج کی ایک ریاست کی فوج غزہ میں اسرائیل کی مدد کیلئے پہنچ چکی ہے لیکن یہ میدانِ جنگ نہیں لڑ رہی، صرف اسرائیلی فوجیوں کو طبی سہولتیں فراہم کر رہی ہے۔ مصر سے پرے شمالی افریقہ کے ایک مسلمان ملک نے اپنی فوج البتہ لڑائی کیلئے بھیجی ہے جو غزہ والوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ ترکی سے یہودی شہریوں کو اسرائیل کی مدد کرنے کی اجازت ملی ہے، سات ہزار ترک یہودی جنگ میں شریک ہیں۔
واپس کریں