سینئر صحافی و معاشی تجزیہ کار شہباز رانا کا کہنا ہے کہ غریب کو جتنی مصیبتیں زندگی بھر میں ملتی ہیں اتنی مصیبتیں ایک ساتھ حالیہ بجٹ میں ڈال دی گئی ہیں‘یہ بجٹ اشرافیہ نے اشرافیہ کے لئے بنایا ہے‘بجٹ سے ثابت ہوگیا پاکستان اشرافیہ کا ہے اور اشرافیہ کا ہی رہے گا، فوج، بیوروکریسی، عدلیہ اور سیاستدانوں سمیت میڈیا پر بوجھ نہیں ڈالا گیا بلکہ مراعات دی گئی ہیں۔ زاہد گشکوری کاکہنا ہے کہ عوام بجلی استعمال کریں نہ کریں اب انہیں پیسے دینا پڑیں گے، بجلی کے ایک بل میں 17مختلف ٹیکسز لگ کر آتے ہیں‘بجلی کے پاور پلانٹس بڑے بڑے بزنس مینوں کی ملکیت ہیں‘یہ حکومت سے ڈالرز میں ادائیگیاں لیتے ہیں‘ہر سال 1.3ٹریلین روپے انہیں کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں جاتے ہیں۔
شہبازرانا کا کہناتھاکہ حکومتی اخراجات میں پچھلے سال کے مقابلہ میں 30فیصد اضافہ کیا گیا ہے، قومی اسمبلی بجٹ میں 46‘سینیٹ 56فیصد ، ایوان صدر کے بجٹ میں 62فیصد اضافہ کیا گیا ہے‘برآمدکنندگان پر پہلی دفعہ اسٹینڈرڈ انکم ٹیکس لگایا گیا ہے باقی سارا بوجھ تنخواہ دار اور کاروباری طبقے پر ڈال دیا گیا ہے۔
عام آدمی کو سہولت دینے والی تمام چیزوں پر ٹیکس لگادیا گیا ہے‘محنت کرکے کمانے والی ورکنگ کلاس کی اس ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے‘بجٹ میں آئی ایم ایف کی بہت سی چیزیں مانی گئی ہیں اور بہت سی چیزیں ان کے مرضی کے مطابق نہیں ہوئیں، آئی ایم ایف کسی صورت بھی نئی انکم ٹیکس چھوٹ کی اجازت نہیں دے گا۔
آئی ایم ایف زرعی شعبہ پر ٹیکس کیلئے صوبوں سے براہ راست بات کررہا ہے، پاکستان کا بجٹ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، بجٹ میں اخراجات کو منجمد کرنا چاہئے تھا، میں وزیرخزانہ ہوتا تو ترقیاتی بجٹ کو 700ارب روپے پر منجمد کرتا جس سے 700ارب روپے کی بچت ہوتی‘ میں کبھی بھی تنخواہ دار طبقے پر اضافی ٹیکس نہیں لگاتا‘وفاقی حکومت کا ڈنڈا صرف تنخواہ دار طبقہ پر چلتا ہے باقی جگہوں پر بھی چلائیں‘وزیرخزانہ جانتے ہیں کہ بجٹ ایسا نہیں کہ آئی ایم ایف کا حالیہ پروگرام آخری ہو، آئی ایم ایف وفدپاکستان آنے کے بعد منی بجٹ کی بازگشت سنائی دے گی۔
واپس کریں