آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان 7 ارب ڈالر قرض پروگرام کا نیا معاہدہ طے پاگیا ہے۔ قرض پروگرام 37 ماہ پر محیط ہوگا۔ یہ سٹاف لیول اگریمنٹ ہے جس کی حتمی منظوری آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ دے گا اور اس منظوری سے قبل پاکستان کے ترقیاتی اور دو طرفہ پارٹنرز کی طرف سے ضروری فنانسنگ کی یقین دہانی کے حصول اور اس کی تصدیق کو بروقت مکمل کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف نے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نیا قرض پروگرام پاکستان کو میکرو اکنامک استحکام و مضبوطی، مزید جامع اور لچکدار ترقی کے لیے ماحول پیدا کرنے کے قابل بنائے گا۔ اعلامیے کے مطابق، پاکستان نے یکم جنوری 2025ء سے زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کے درمیانی مدت کے پالیسی اور اصلاحات کے پلان کی حمایت کرتا ہے۔ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ وفاق اور صوبے اٹھارھویں آئینی ترمیم کے تحت اخراجات کو ری بیلنس کرنے پر متفق ہوگئے ہیں، وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان نیشنل فسکل معاہدہ ہوگا۔ صوبے اپنی ٹیکس جمع کرنے کی کوششوں کو بڑھانے کے لیے اقدامات کریں گے، ان میں سروسز پر سیلز ٹیکس اور زرعی انکم ٹیکس کا نفاذ شامل ہے۔ تمام صوبے وفاقی اور کارپوریٹ انکم ٹیکس رجیم کے ساتھ قانون سازی کے ذریعے اپنے زرعی انکم ٹیکس کے نظام کو مکمل طور پر ہم آہنگ کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔
آئی ایم ایف کا اعلامیہ بتاتا ہے کہ مانیٹری پالیسی میں مہنگائی میں کمی پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی، جھٹکوں سے بچائو اور زر مبادلہ ذخائر بہتر بنانے کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان ایک لچکدار شرح مبادلہ کو برقرار رکھے گا، فارن ایکسچینج مارکیٹ کے کام اور زر مبادلہ کے آپریشنز کے اردگرد شفافیت کو بہتر بنانا ہوگا۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ حکام سرکاری تحویل کے کاروباری اداروں کے آپریشنز اور انتظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ نجکاری، پاکستان خود مختار دولت فنڈ میں شفافیت اور گورننس کو مضبوط بنانے کی کوششوں کو آگے بڑھائیں گے۔ آئی ایم ایف کے مطابق، پاکستان خصوصی اقتصادی زونز کے لیے مراعات کو بھی مرحلہ وار ختم کررہا ہے، زرعی سپورٹ پرائس اور زراعت سے منسلک سبسڈیز ختم کی جارہی ہیں، اور نئی ریگولیٹری یا ٹیکس پر مبنی مراعات سے گریز کیا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے ریگولیٹری یا ٹیکس کی بنیاد پر ترغیبات بھی نہیں دی جارہیں، نہ ایسی ضمانت دی جارہی ہے جو منافع کو یقینی بناتی ہو۔ اس میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت آنے والے منصوبے بھی شامل ہیں۔ آئی ایم ایف کے بیان کے مطابق حکام نے انسداد بدعنوانی کے ساتھ ساتھ گورننس اور شفافیت کی اصلاحات کو آگے بڑھانے اور تجارتی پالیسی کو بتدریج آزاد کرنے کا عہد کیا ہے۔ پاکستان کو توانائی کے شعبے کی عملداری کو بحال کرنا اور توانائی کے نرخوں کی بروقت ایڈجسٹمنٹ، لاگت میں کمی کرنے والی فیصلہ کن اصلاحات، اور پیداواری صلاحیت میں مزید غیر ضروری توسیع سے گریز کے ذریعے مالیاتی خطرات کو کم کرنا ہوگا۔
عالمی ساہوکار کی طرف سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مندرجات سے ایسا لگتا ہے کہ یہ ادارہ پاکستان کو قرض نہیں دے رہا بلکہ اس نے ملک پر اپنا قبضہ جما لیا ہے اور اب وہ معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے لیے ڈکٹیشن دے رہا ہے۔ یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ یکے بعد دیگرے تشکیل پانے والی حکومتوں نے اس ادارے سے ملک کی جان چھڑانے کے لیے ایسے ٹھوس اقدامات نہیں جن کے نتیجے میں ایک طرف قرض مزید نہ لینا پڑتا اور دوسری جانب ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت نے جو نیا معاہدہ کیا ہے اس کے بعد تین سال میں ٹیکس ریونیو میں 3724 ارب روپے اضافے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ ظاہر ہے یہ رقم ملک کے اندر سے ہی اکٹھی ہونی ہے اور ماضی کے واقعات سامنے رکھے جائیں تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ یہ بوجھ بھی عوام پر ہی ڈالا جائے گا اور اشرافیہ کے مفادات پر زد نہیں پڑنے دی جائے گی۔ادھر، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت ہمیں اسٹرکچرل ریفارمز یقینی بنانے کی ضرورت ہے، پبلک فنانس، توانائی اور حکومتی اداروں کے ایریاز میں استحکام ضروری ہے۔ یہ بات حیران کن ہے کہ ہر وزیر خارجہ کو اصلاحات آئی ایم ایف کے کہنے پر ہی کیوں یاد آتی ہیں اور ان کا نشانہ عام آدمی ہی کیوں بنتا ہے؟
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ٹیکس کے شعبہ میں ایسا نظام وضع کیا جائے تاکہ کمزرویاں دور ہوسکیں، تاجر اور کاروباری افراد کو ٹیکس معاملات میں ناجائز تنگ نہ کیا جائے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)ہیڈ کوارٹرز کے دورے کے موقع پر اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن کا عمل جاری ہے۔ ملک میں ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ اگر ہم نے پاکستان کی قرضوں سے جان چھڑانی ہے تو آئی ایم ایف کے اس پروگرام کو آخری پروگرام تصور کرنا ہے اور یقینی بنانا ہے کہ یہ آخری پروگرام ہی ہو۔ وزیراعظم نے آئی ایم ایف معاہدے کو نئی ذمہ داریوں کا آغاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب ٹیکس کا نفاذ ان افراد پر کریں جو ایک دھیلے کا ٹیکس نہیں دیتے۔
وزیراعظم جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ سننے کے لیے بہت اچھا ہے لیکن اس پر عمل درآمد ہوگا یا نہیں، اس بارے میں یقینی طور پر خود وزیراعظم بھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کی بیساکھی کے سہارے ہم لنگڑاتے ہوئے چلتے تو رہیں گے لیکن اپنے پاؤں پر کبھی کھڑے نہیں ہوسکیں۔ اگر ہم واقعی ملکی معیشت کو مستحکم بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ملک میں سیاسی استحکام لانا ہوگا اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا ہوگا۔ مزید یہ کہ جب تک اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے دی جانے والی اربوں ڈالر کی مراعات و سہولیات ختم نہیں کی جاتیں تب تک اقتصادی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
واپس کریں