دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر کے بجلی صارفین سے پھر دھوکا کر دیا گیا
No image (راولاکوٹ۔ تجزیہ آصف اشرف) ایک سالہ تحریک اور لاکھوں لوگوں کے میدان میں آنے اور چار ارب روپیہ کا ریونیو روکنے والوں سے پھر دھوکا کر دیا گیا حکومت آزاد کشمیر نے دو ماہ انتظار کروانے کے بعد بھی ادھورا نوٹیفکیشن جاری کردیا حکومت پاکستان کے نمائندہ چیف سیکرٹری آزاد کشمیر نے دو حساس ترین اداروں آ ئی ایس آئی اور ایم آئی کے آفیسرز کے ساتھ مل کر معائدہ کیا تھا کہ آزاد کشمیر کے لوگوں کو پیداوری لاگت پر بجلی بلز دئیے جائیں گے جو عرصہ دراز سے متنازعہ ریاست جموں کشمیر کے ایک دوسرے حصے گلگت بلتستان میں دئیے جا رہے ہیں۔ ساتھ یہ کہ نو ماہ کے بائی کاٹ تحریک کے دوران روکے بلز کا عوامی خواہشات پر حل ہوگا تیرہ مئی کو وزیراعظم آزاد کشمیر انوار الحق اور ن لیگ کشمیر کی پارلیمانی پارٹی نے جب وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف سے ملاقات کی تو انہیں بتایا گیا کہ چار ارب روپیہ واپڈا کا واجب الادا ہے جس پر بقا یا جات ادا کرنے چار ارب روپیہ دیا گیا مگر وہ چار ارب روپیہ غائب کر دیا گیا اور اب بائی کاٹ تحریک میں شامل تاجران اور شہریوں کو کہا گیا کہ وہ بقایا جات بارہ قسطوں میں ادا کریں اس بقیہ کی ادائیگی میں تاجران کو ٹیکسز پھر بھی دینا ہوں گے۔ یوں ایک مرتبہ پھر آزاد کشمیر کی حکومت اور بیوروکریسی اربوں روپیہ بقایا جات میں وصول کریں گے اور ساتھ چار ارب روپیہ بھی اپنی عیاشی پر خرچ کریں گے لوگوں کو اس خوشی میں دھکیل دیا گیا ہے کہ بجلی بلز پر تین روپیہ فی یونٹ کے طور سستی بجلی دیں گے قابل ذکر بات یہ ہے کہ تحریک کی کامیابی میں تاجران نے شٹر ڈاؤن ہڑتالیں کر کے تحریک کامیاب کرنے کلیدی کردار ادا کیا اور اب انہیں بائی کاٹ مہم میں شریک رہنے پر سزا یہ دی گئی ہے کہ وہ نو ماہ کے بائی کاٹ تحریک کے دوران روکے بلز ٹیکسوں سمیت ادا کریں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی وزیراعظم آزاد کشمیر سے نہ جانے کیوں پوچھنا گوارہ نہیں کر رہی ہے کہ جب تیرہ مئی کو وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف سے بقایا جات کا کہہ کر چار ارب روپیہ لایا گیا پھر کیوں وہ واپڈا کو دینے کے بجائے حکومت اپنی ضروریات پوری کرنے خرچ کرنا چاہتی ہے پھر کیوں ان تاجروں سے ٹیکس سمیت اور عام لوگوں سے بغیر ٹیکس نو ماہ میں بائی کاٹ کر کے روکے ریونیو کو واپس لوگوں کی جیبوں سے وصول کیا جا رہا ہے نئے نوٹیفکیشن پر ممبران اسمبلی کی خاموشی بھی سوالیہ نشان بن گئی ہے کہ کیوں کوئی ایک بھی ممبر اسمبلی بالخصوص اپوزیشن لیڈر خواجہ فاروق سابق وزرائے اعظم عبدالقیوم نیازی یعقوب خان عتیق خان اور حسن ابراہیم اسمبلی میں یہ پوچھتے کہ شہباز شریف سے لایا چار ارب بقایہ جات ادا کرنے کے بجائے دیگر عیاشیوں پر کیوں خرچ ہوگا حکومت کے نئے نوٹیفکیشن میں آٹے پر بھی کوئی موقف اختیار نہیں کیا گیا ۔
گزشتہ سال جب آٹے کی قیمت 3600سوروپیہ من تھی تب سبسڈی کے لیے بارہ ارب کی ضرورت تھی اب قیمت گر کر 2000روپیہ فی من ہے پھر کیوں سبسڈی کے لیے بارہ ارب روپیہ کے بجائے انیس ارب روپے شہباز شریف حکومت سے لیے گئے اور الٹا آٹے کا میعار ناقص اور ایلوکیشن کم ہے نئے نوٹیفکیشن پر عوام نے سخت ردعمل کرتے ممبران اسمبلی اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی سے دو ٹوک مطالبہ کیا ہے کہ گھریلو اور کمرشل تمام بقیہ بلز اس چار ارب روپیہ سے ادا کیے جائیں جو تیرہ مئی کو بقایہ جات کی مد میں لیا گیا اور اس کے بعد کے بلز نئے ٹیرف پر بغیر کسی ٹیکس دئیے جائیں ورنہ مظفرآباد کے بجائے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ہوگا۔
واپس کریں