دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پرویز مشرف کون سی بیماری کا شکار ہیں؟
No image *پرویز مشرف جس بیماری میں مبتلا ہیں بہت کم لوگوں کو ھوئی اس بیماری کا شکار نمبر 1 سینئر بش اور دوسرا فرعون تھا*
میرا اپنے اس دوست ڈاکٹر کے پاس رکنے کا بالکل بھی ارادہ نہیں تھا۔۔ بس سلام دعا کر کے نکلنا چاہتا تھا مگر اتفاق سے اس کے پاس اسکا ایک اور ڈاکٹر دوست بھی آ کر بیٹھا تھا اور یہ دونوں دوست جس عنوان پہ محو گفتگو تھے میں چاہ کر بھی وہاں سے نہ اٹھ پایا۔۔گفتگو دلچسپ بھی تھی سنسی خیز بھی اور عبرتناک بھی۔۔سو میں وہیں رک گیا۔۔
یہ ہفتہ بھر پہلے کی بات ہے جس دن سابق صدر پرویز مشرف کی موت کی خبریں دھڑا دھڑ چلائی جا رہی تھیں۔۔اور اسی تناظر میں سنیئر ڈاکٹر اپنے جونیئر دوست کو اس پراسرار بیماری سے آگاہ کر رہا تھا جس نے اس شخص کو اپنی گرفت میں لے کر اہل جہاں کیلئے یوں عبرت کا نشاں بنا دیا کہ دنیا کے جدید ترین ہاسپیٹلز اور ماہر ترین ڈاکٹرز نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے۔۔
*ڈاکٹر بتا رہا تھا کہ اس بیماری کو ایملوئیڈوسز (Amyloidosis) کہتے ہیں۔ اور دنیا میں یہ ایسی نایاب بیماری ہے کہ اس سے بہت کم لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ بلکہ آپ یوں کہہ لیں کہ اس بیماری کو قدرت نے چند ایک مخصوص کرداروں کیلئے رکھا ہوا ہے۔*
*ایسے کردار *جن پہ خود کو ہی سب کچھ سمجھ لینے کا جنون اور پاگل پن سوار تھا۔۔*
*ایسے لوگوں کو جب یہ نایاب بیماری اپنے بے رحم شکنجے میں لیتی ہے تو ان کے پورے جسم کے اعضاء یعنی دل، دماغ، گردے، تلی اور جسم کے دیگر حصوں کے سیلز میں ایملوئیڈ (Amyloid) کے غیر معمولی پروٹین جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔۔ان پروٹین کی غیر معمولی افزائش کے نتیجہ میں متاثرہ شخص کے اعضاء کی کارکردگی نہ صرف متاثر ہوتی ہے بلکہ یہ مریض ہلنے جلنے سے بھی قاصر ہو جایا کرتا ہے۔۔*
79 سالہ سابق صدر 2018ء سے اس پراسرار اور نایاب بیماری کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ڈاکٹروں نے انکی حالت کو تشویش ناک قرار دے رکھا ہے۔۔
یہ بیماری کیوں لاحق ہوتی ہے۔۔اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے حیران کر دینے والا جواب دیا کہ میڈیکل سائنس باوجود اتنی تحقیق و جدید ہونے کے ابھی تک یہ کھوج لگانے میں ناکام رہی ہے کہ اس بیماری کے لاحق ہونے کی وجوہات کیا ہیں۔البتہ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ جین میں تبدیلی اس بیماری کے لاحق ہونے کی وجہ ہو سکتی ہے۔۔
*اس بیماری کی علامات میں مریض کا خود کو کمزور اور تھکا ہوا محسوس کرنا، وزن کا بلاوجہ گر جانا، پیٹ، ٹانگوں، پاوں، ٹخنوں کا سوج جانا، جلد پر خراشوں کا آجانا، آنکھوں کے گرد جامنی دھبوں کاپڑ جانا،ہلکی سی چوٹ لگنے پہ بھی خون کامعمول سے زیادہ نکلنا،زبان کا حجم بڑھ جانا اور سانس کا پھول جانا شامل ہے۔۔*
*( میں چاہوں گا کہ ہم سب سابق صدر کو لاحق بیماری کی وجہ سے درپیش علامات کو دوبارہ پڑھیں، عبرت حاصل کریں اور عافیت مانگیں)*
*ایملوئیڈوسز کی تشخیص اور علاج دنیا بھر میں موجود بیماریوں کے مقابلہ میں مشکل ترین ہے۔ اسکی تشخیص کیلئے ڈاکٹر بائی آپسی (Biopsy) کے ذریعے متاثرہ اعضاء سے مریض کے سمپلز لیتے ہیں۔*
ڈاکٹر فرما رہے تھے کہ ابھی تک اس بیماری کا کوئی علاج نہیں۔۔آپ موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی میڈیکل سانئس کو اس بیماری کے سامنے بے بس پایئں گے۔ بس اس بیماری کے بعد وہ مریض ہوتا ہے۔۔اس کے اہل خانہ یا پھر خدائے بزرگ و برتر۔۔کہ وہ اس شخص کو کب تک اس حالت میں رکھنا چاہے۔۔
*سابق صدر پچھلے کئی برسوں سے اس کنڈیشن میں ہے۔۔ان کے اعضاء گل سڑ رہے ہیں۔۔وہ دیکھتے ہیں مگر پہچان نہیں پاتے، زبان ہے مگر بولنے سے قاصر ہیں۔۔ہاتھ پاوں موجود ہیں مگر ان کو حرکت دینے سے قاصر ہیں۔۔ کان سلامت ہیں مگر سننے کی صلاحیت کب کی کھو چکے ہیں۔۔ انکی ٹانگیں وجود کا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہیں ۔۔ان کا کھانا پینا بند ہے۔۔وہ برائے نام لیکویڈ چیزوں پہ زندہ ہیں۔۔اور ستم ظریفی یہ کہ انکی اس خراب تر کنڈیشن میں بھی انہیں وینٹی لیٹر پہ منتقل کرنا ممکن نہیں۔۔بس ایک بے بسی ہے۔۔لاچارگی ہے۔۔عبرت کا سامان اور توبہ کا مقام ہے۔۔*
ڈاکٹر صاحبان کی بحث ابھی جاری تھی مگر میں نے کہیں آگے جانا تھا۔۔سو میں اٹھاہاتھ ملایااوراجازت لینے سے پہلے ایک سوال کا جواب چاہا۔۔کہ ماضی میں بھی یہ بیماری کسی کو لگی ہے۔۔جس کا شکار ہمارے سابقہ صدر ہیں۔۔؟ اس پہ کچھ دیر ڈاکٹر نے سوچا اور پھر کہا۔۔ شاید بش سنیئر کو۔۔اور کچھ لوگوں کے بقول فرعون کو بھی۔۔اس وقت چونکہ میڈیکل نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔۔مگر تاریخ میں لکھی اسکی موت کی وجوہات میں بھی علامات یہیں تھیں۔۔*
مجھ میں اس سے زیادہ سننے کی سکت نہیں تھی۔۔میں تیز قدموں سے نکلا اور باہر موجود بھیڑ میں گم ہوتا گیا۔۔
سابق صدر کا موضوع جو کہ جلد کلوز ہونے والا ہے۔۔اس پہ میری یہ غیر جذباتی تحریر آخری تحریر ہے۔۔کیونکہ میں نہیں چاہوں گا کہ کسی مرنے والے پہ ایسا کچھ لکھا جائے۔۔ جو مناسب نہ ہو۔۔۔تاہم اتنا ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ
*اس دنیا کو اسی لیئے باعث تماشہ بھی کہا جاتا ہے اور باعث عبرت بھی۔۔*کیا کوئی تصور بھی کر سکتا ہے کہ چند سال پہلے کا وہ طاقتور شخص جس کے حکم پہ سینکڑوں لوگ موت کے گھاٹ اتاردیئے جاتے تھے۔۔جس نے باجوڑ مدرسہ میں بمباری اور سو کے قریب بچوں کی شہادت پہ اپنی چھاتی پہ ہاتھ مار کے کہا تھا کہ یہ ہم نے کیا ہے۔۔جس نے اسلام آباد کے وسط میں موجود مدرسہ و مسجد کو تہس نہس کر کے معصوموں کے جسموں کے پرخچے اڑاتے ہوئے اس کو اپنی عظیم فتح کہا تھا۔۔جس کی ناقص پالیساں اس ارض پاک پہ خودکش حملوں کا باعث بنیں تھیں۔۔جس نے بگٹی کو کہا تھا کہ میں تمہیں وہاں سے ہٹ کروں گا کہ جہاں سے تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔۔اور تب سے بلوچستان آگ میں سلگ رہا ہے۔۔جس نے کراچی میں ان گنت معصوم لوگوں کی خون آلود لاشوں کو سڑکوں پہ پڑا دیکھ کر اسلام آباد میں مکے ہوا میں لہراتے کہا تھا کہ آج کراچی میں دیکھ لیں ہماری طاقت۔۔*اورشیخ رشیداسی فاس کمانڈوکے جوتے چاٹتے ہوئے اس کی ہرہاں میں ہان ملانااپنادین ایمان سمجھتاتھا۔
جس کی اجازت سےدئے ہوئے اپنے ائیر بیسز سے امریکہ کے جنگی جہاز لوڈ ہوتے اور بے گناہ افغانیوں پر کارپٹ بمباری کرتے ہوئے لاکھوں شہید کئے ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
وہ شخص آج دیار غیر میں، لاچارگی و بے بسی کی تصویر بنا موت کا منتظر بھی ہے اور خواہش مند بھی۔۔مگر موت اس سے کوسوں دور بھاگ رہی ہے۔۔وہ اپنے وطن سے دور ہسپتال کے ایک گمنام کمرے میں پڑا واپس اپنی مٹی میں مدفن ہونے کا خواہشمند اور درخواست گزار ہے۔۔جلد ہی اسکی بچی کھچی اور ٹوٹتی جڑتی سانسیں اسکا ساتھ چھوڑ جایئں گی اور یوں کسی قبرستان میں مٹی کے ایک ڈھیر کا اضافہ ہو جائے گا۔۔جس کو کوئی بھی کبھی بھی مڑ کر نہیں دیکھے گا کہ یہاں کون مدفن ہے۔
۔فاعتبروا یا أولی الابصار
واپس کریں