دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شوکت نواز میر شکریہ ۔ تحریر، آصف اشرف
No image آج پھر مایوسی ہے مایوسی قطعی یہ نہیں کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے انقلابی ضمانتیں کروا گئے ضمانتیں کوئی جرم نہیں بلکہ عصر حاضر میں تحریکیوں کے لیے ناگزیر ہوتی ہیں صدمہ اس بات کا ہے کہ سخت گرمی میں انہوں نے قید کیوں کاٹی عید قربان کیوں گھر والوں سے دور جیلوں میں کی پہلے کیوں ضمانتیں نہ کروائیں اور اب کیوں ایسا کیا جب لوہا گرم تھا وار کرنا تھا ۔
ایک روز بعد ریاست پھر بارہ مئی کی طرح بلینک نوٹیفکیشن لیکر آتی جب لوگوں کا سیلاب نکلتا اور حکمران از خود رہائی دیتے مگر ۔۔۔۔ یہ پہلی بار ہاتھ نہیں ہوا پہلے بھی سب کچھ ہائی جیک ہوا تھا جب گزشتہ سال راولاکوٹ کچہری دھرنا سےگرفتار لوگ جب محض دو روز بعد نہ صرف غیر مشروط رہا ہونے جا رہے تھے بلکہ ساتھ ضلع پونچھ کی انتظامیہ کے خلاف ان غیر قانونی گرفتاریوں پر سخت فیصلہ دینے جا رہی تھی اور اسیران بھی رہائی کے لیے حکومت آزاد کشمیر سے مانگ نہ کرنے بضد تھے تب ان اسیران کو رہا کروا کر بڑوں کے لیے راستہ صاف کیا گیا اب آج ضمانتیں کروا،کر پھر مظفرآباد حکومت کی بالادستی بلاوجہ مسلط کر دی گئی اب سوال قومی سوال بننے جا رہا ہے کہ ریمورٹ کنٹرول کس کے پاس ہے مجھے اب لوگ یہ رات کے چھاپے نامنظور کی جگہ یہ رات کے ڈرامے نہ بھائی کہ نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔
چار فروری کی رات بھی کچھ لے دے ہوئی تھی مگر پانچ فروری کو لوگوں نے نہ پہیہ چلنے دیا نہ ٹارگٹڈ سبسڈی قبول کی اب کی بار عید قربان بھی صدمے اور دکھ کے ساتھ گزری ایک سال کی بے مثال جدوجہد اور چار جوان حریت پسند وں کی قربانی کے باوجود عید پر اچھے موسم میں گھنٹوں لورڈ شیڈنگ رہی تو بھبمر اور میرپور کی جیلوں میں عوامی ایکشن کمیٹی سے وابستہ حریت پسند ناحق قید میں رہے تب ہی تو اس عید کو میں دکھ بھری عید قرار دیتا ہوں بارہ مئی تاریخی دن تھا جب ریاست عملی طور ہھتیار پھنک چکی تھی بلینک نوٹیفکیشن پر سب کچھ منوایا جا سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔ مزاکرات میں سب سے پہلے اسیر ان میرپور کی فوری رہائی مانگی جاتی مگر ایسا نہیں ہوا ریاست کے سامنے صرف تین مطالبات رکھنے تھے جو دس مئی کو آویزاں بیننر پر لکھے گئے پہلا مطالبہ آزاد کشمیر کو فری لورڈشیڈنگ زون قرار دینے کے ساتھ نیشنل گریڈ اسٹیشن قائم کرنے کا تھا دوسرا مطالبہ گلگت جتنی قیمت پر بجلی بلز اور گندم کی فراہمی اور تیسرا مطالبہ عوام کے ٹیکسوں سے مراعات یافتہ طبقے کی عیاشی ختم کروانا تھا مگر تحریک جب فیصلہ کن موڑ پر پہنچی تو پہلا مطالبہ چارٹرڈ آف ڈیمانڈ سے غائب ہو گیا۔
جب چیف سیکرٹری دو حساس اداروں کے سنئیر آفیسرز کے ساتھ وائسرائے بن کر مزاکرات کی میز پر پہنچا تو اس کے ساتھ نہ جانے کس دم درود کا اثر ہوا کہ اسیران کی اسی وقت رہائی اور فری لورڈشیڈنگ زون قرار دینے کا مطالبہ نہ منوایا جا سکا اس وقت دو سو میگا واٹ بجلی مزید کشمیر کو ملی بجلی میں شامل کرنا تھی جو با آسانی ممکن تھا تب ریاست اسلام آباد کے لیے سب ماننا ناگزیر ہو چکا تھا مگر یہ موقع کھو دیا اب لورڈشیڈنگ کا سامنا بھی ہے تو متنازعہ خطہ میں ایف بی آر کی نئی کھت کہ لئیسکو ٹیکسوں کے بغیر بلز جاری نہیں کر سکتا سوال یہ ہے کہ کیوں شہباز شریف حکومت اور انوار الحق چودھری ماضی کی طرح لئیسکو سے معاہدہ ختم نہیں کر رہے عالمی سطح پر جب شمالی کشمیر گلگت بلتستان کا اسٹیٹس جب آزاد کشمیر جیسا ہے وہاں بلز بغیر ٹیکس ہیں تو پھر آزاد کشمیر میں ٹیکسوں کا کیا جواز۔
اوپر سے یہ کشمیر جب "آزاد"بھی ہے پھر ایف بی آر کیوں غیر ریاستی محکمہ ہوکر مداخلت اور کھڑ پہنچی کر رہا ہے ستم یہ بھی ہوا کہ مراعات یافتہ طبقے کی عیاشی کے لیے مزید تئیس ارب روپے کی رقم امداد کے طور جو ملی اس کے جائز مصرف کے لیے بھی نہ ایکشن کمیٹی بول رہی ہے نہ کوئی اور انقلابی ہونے کا دعوے دار اسمبلی میں موجود سب کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے تئیس ارب روپے سے چار ارب شہباز شریف کے سامنے یہ موقف اختیار کرتے لیے گئے کہ نو ماہ سے جاری تحریک میں تاجران اور گھروں کے بائی کاٹ کی وجہ سے چار ارب روپیہ واپڈا کو دینے ہیں مگر اب وہ رقم واپڈا کو دینے کے بجائے حکومت آزاد کشمیر اپنی عیاشیوں پر چرچ کررہی ہے لوگوں کو یہ راستہ دکھایا گیا ہے کہ وہ اقساط میں نو ماہ کے واجبات جمع کروائیں اسی طرح آٹا کے لیے جب چھتیس سو روپیہ فی من آٹا تھا تب بارہ ارب سبسڈی کے لیے جاری ہوئے اب آٹا سستا ہو کر دو ہزار روپیہ فی من ہوگیا اس تناسب سے آٹے پر سبسڈی کے لیے سات ارب روپے کی رقم ضرورت تھی مگر شہباز شریف حکومت سے انیس ارب روپے لیے گئے یوں آٹے کی سبسڈی سے بار ہ ارب اور بجلی بلز کی ادائیگی کے لیے جاری چار ارب روپیہ کی رقم انوار الحق کی حکومت امراء کی عیاشی پر خرچ کرے گی مگر کوئی ایک بھی پوچھنے تیار نہیں مجھے نہ جانے کیوں وہ سیاست کار یاد آتا ہے۔
جن کا کہنا تھا کہ پروگرام تو وڑ گیا اب لگتا ہے کہ تحریک وڑ گئی کا شور نہ برپا ہو جائے بیورو کریسی اور حکومتی مشینری نے پہلے واردات ڈالی کہ بجلی بلز نہ جلائے جائیں اس تجویز پر فیصل راٹھور نے وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف متوقع تحریک عدم اعتماد میں متبادل بننے کی کوشش کی اس کا نتیجہ کیا سامنے آ تا ہے جلد واضع ہو گا البتہ بلز جلانے روک کر حکومت نے تحریک کو تقسیم ضرور کیا اب مراعات یافتہ طبقے کی عیاشی اسی طرح جاری ہے تئیس ارب روپے اور بھی تحریک کی وجہ مل گئے سرکاری گاڑیوں کا استعمال جاری ہے بجلی میٹرز کی فروخت اور چار گنا زیادہ قیمت پر غیر قانونی طریقہ سے بجلی میٹرز کا کاروبار تک نہیں رک سکا گلگت جتنی قیمت پر گندم کی فراہمی کا مطالبہ تک نہیں کیا جا سکا حالانکہ بارہ ارب روپے کی رقم کی جگہ ملی انیس ارب روپے کی رقم سے ساڑھے تین لاکھ صارفین کو اس مالی سال ایک ہزار روپیہ فی من گلگت ریٹ پر گندم مل سکتی ہےساتھ ملز مافیا کی لوٹ مار بند ہو سکتی ہے نہر اپر جہلم کے دو سپیلز تک نہیں کھولوائے جا سکے ۔
ریاست نے ساری تحریک اب قیدیوں کی رہائی تک محدود کروادی تھی تب ہی تو وزیر اطلاعات آزاد کشمیر کہہ رہے ہیں کہ کمیٹی اصل مطالبات سے ہٹ کر سیاسی راہ پر چل پڑی یہ عوامی حقوق کی تحریک تھی خودمختار کشمیر کے نظریے کی ترجمانی قطعی اس تحریک کا مقصد نہ تھا مظفرآباد میں تین حریت پسند ناحق شہید ہوئے کیوں ان شہداء کی ایف آئی آر درج کروانے کا فیصلہ ہوا تحریک کے آغاز میں بلز جلانے روکا گیا اور فائنل موڑ پر شہداء کی ایف آئی آر درج کروانے دستبرداری کی گئی اس عمل پر دماغ ضرور سوچتا ہے کہ اس تحریک کا جبری طور ریمورٹ کس نے اپنے ہاتھ لیا ہے جو فیصلے کہیں اور سے لیے جاتے ہیں تحریکیں فرد واحد کی محتاج نہیں ہوتیں تحریکیں چھانٹی ضرور کر جاتی ہیں اگر اس تحریک نے اسمبلی ممبران اور ان کے وکیلوں کو ناکام کیا ہے تو یہ تحریک کل اپنے زمہ داران سے بھی پوچھے گی کہ کیوں مصلحت پسند ی کی جب طے تھا کہ کوئی سیاسی نمائندہ اس پلیٹ فارم کو اپنی سیاست کے لیے استعمال نہیں کرے گا پھر کیوں تیرہ مئی کی رات عیدگاہ گراؤنڈ میں متنازعہ تقاریر کروائیں اس باعث جواز مہیاء کروایا گیا کہ آج مخصوص سیاسی جماعتیں ریلیاں نکالے جا رہی ہیں۔
اس باعث حالات بنائے گئے کہ چار بیہاڑ میں نہتے آزادی پسند وں پر تشدد کیا گیا اور جیلوں میں ڈالے گئے آج اگر حکومتی اشرافیہ سے لوگ قدم قدم پر روک کر سوال کر رہے ہیں تو کل تحریک کی تقسیم اور ناکامی کی صورت لوگ تحریک کے زمہ داران سے بھی سوال کریں گے ان سے زیادہ سخت محاسبہ کریں گے لہزا بہتر راستہ یہی ہے کہ دو ٹوک واضع موقف اختیار کیا جائےشہدائے مظفرآباد کے قتل کی ایف آئی آر اور چاروں شہیدوں بشمول پولیس انسپکٹر کی جوڈیشل کمیشن کے زریعہ انکوائری کی مانگ کی جائے تئیس ارب روپے کی رقم کو ظاہر کردہ مقاصد واجب الادا بجلی بلز کی ادائیگی اور ایک ہزار روپیہ فی من گندم کی فراہمی پر فوری خرچ کروایا جائے ازاد کشمیر کو فری لورڈشیڈنگ زون قرار دے کر نیشنل گرڈ اسٹیشن قائم کروایا جائے سرکاری گاڑیوں کی سہولت نجی مقاصد کے لیے رکوا جائے مفت بجلی مفت پٹرول ڈیزل کی سہولت آٹھ سو سی سی سے بڑی گاڑیوں پر پابندی اور ایک لاکھ روپیہ سے زائد پنشن ججز سمیت ہر ایک کے لیے بند کروائی جائے تیرہ ماہ سے احتجاج کے بعد اب مزید وقت دینے گریز کیا جائے ورنہ ایکشن کمیٹی کو بھی لوگ سیاسی جماعتوں کی طرح مسترد کر دیں گے اور ایک خانہ جنگی برپا ہو گی خداراہ اس وقت سے پہلے ادراک کیجیے اب سٹیج کی جنگ نہیں ٹیبل کی جنگ جیتنا ہے۔
بارہ مئی کی طرح ٹیبل پر شکست ہوئی تو خون خرابہ ہوگا جو صرف ریاست کے مفاد میں ہوگا عوام اور ایکشن کمیٹی سب کا صرف خسارہ ہوگا انٹری پوائنٹس کی طرف لانگ مارچ کے بجائے ہر گاوں ہر شہر میں ہزاروں افراد کے دھرنے دئیے جائیں روزانہ چار چار گھنٹے دھرنے دئیے جائیں تاکہ دنیا پر واضع کیا جائے کہ لوگ پرامن مزاحمت کر رہے ہیں ایک روز ہزاروں افراد تمام ضلع ہیڈکوارٹرز پر اقوام متحدہ کے دفاتر کی طرف مارچ کریں اور وہاں جا کر یاداشت پیش کریں کہ ان اشیاء ضرورت پر یو این سبسڈی دے رہا ہے اور ہماری سبسڈی اسلام آباد سرکار کھا رہی ہے اگر علی امین گنڈاپور پختونخوا کو ملی سولہ ارب روپے کی رقم کے حوالے نہ کرنے اپنی مرکزی حکومت پاکستان کے خلاف آئی ایم ایف سے رجوع کر سکتا ہے تو عوامی ایکشن کمیٹی کیوں یو این کے سامنے موقف نہیں رکھ سکتی ۔
حرف آخر انجمن تاجران مظفرآباد کے صدر شوکت نواز میر کا خصوصی شکریہ جو بہترین انداز میں "زمہ واری" سر انجام دے رہے ہیں یہ بھی وہ باور کروا چکے کہ آٹا بجلی ان کا مسلہ نہیں اصل مسلہ "شناخت"کا ہے ۔ میں آج پھر بابائے قوم مقبول بٹ شہید کہے شعر کو دہراتے ان کی دور اندیشی کو سلام محبت پیش کرتے سارے دکھی دلوں سے اجازت چاہوں گا۔۔۔۔یا خدامجھے میرے دوستوں سے بچا ۔۔دشمن میں خود نمٹ لوں گا۔
واپس کریں