دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کمزور حکومت کے لیے مزید کڑا وقت آنے والا ہے۔کنور دلشاد
No image قومی بجٹ اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلمینٹیرین نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے پروٹوکول کا خیال کرتے ہوئے علامتی شرکت کی، تاہم معلوم یہ پڑتا ہے کہ بلاول زرداری اور ان کے پارلیمینٹیرین پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کمزور ترین حکومت سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
پارلیمانی روایت کے برعکس وہ حکومت کے اہم ترین آئینی اداروں پر مسلط ہیں اورعوام میں یہ تاثر بھی دے رہے ہیں کہ ان کا موجودہ حکومت کی کسی پالیسی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ پارلیمانی آداب میں اسے ’پارلیمانی منافقت‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔
18 کھرب روپے سے زائد کا قومی بجٹ ایسے وزیر خزانہ نے پیش کیا ہے جو وزارت کی ناکامی کے بعد خاموشی سے نیدرلینڈز سدھار جائیں گے۔
وہ قوم و ریاست کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں جب کہ بلاول زرداری قومی اسمبلی کے ایوان میں اپنے حواریوں کے جھرمٹ میں اعلان کریں گے کہ ان کی پارٹی کا عوام دشمن بجٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اب جب کہ غیرملکی شہریت کے حامل وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے 38 کھرب کے اضافی ٹیکس لگا دیے ہیں، جس کا عمومی طور پر بوجھ غریب عوام پر ہی پڑے گا اور احتجاجی تحریکیں بھی شروع ہو جائیں گی کیونکہ وزیر خزانہ 25 کروڑ عوام کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں، تو وہ خاموشی سے باہر نکل جائیں گے۔
جس انداز سے انہیں اور ان کے دیگر ساتھیوں سمیت بشمول تحریک انصاف کے، بلامقابلہ سینیٹرز منتخب کروایا گیا ہے وہ بھی قابلِ غور ہے کہ وہ کسی جماعت کے باقاعدہ رکن بھی نہیں ہیں۔
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ انوکھا تجربہ کیا گیا ہے کہ آزاد سینیٹر بطور وزیر خزانہ ملک کے مستقبل کا فیصلہ کر رہے ہیں۔
اس سے پیشتر شوکت عزیز، حفیظ شیخ اور شوکت ترین باقاعدہ پارٹی کے رکن تھے جب کہ موجودہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں ہے اور ان پر پارٹی کی طرف سے جواب دہی بھی نہیں بنتی۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی ان کی رائے کے آگے سرنگوں ہی رہیں گے، اسی تناظر میں بلاول زرداری نے بجٹ اجلاس سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے علامتی طور پر شرکت کروائی اور خود غائب رہے۔
قومی بجٹ ایوان میں پیش کرنے سے پیشتر پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین اور مسلم لیگ (ن) کے مابین بجٹ کے معاملے پر بھرپور اختلافات پیدا ہوئے اور بلاول زرداری شدید غصے میں پارلیمنٹ ہاؤس سے واپس آ گئے تھے اور کسی کارروائی کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندرونی حلقے پیپلز پارٹی کی سیاسی گیم اور دہری پالیسی سے سخت نالاں ہوتے جا رہے ہیں اور میاں نواز شریف بطور صدر مسلم لیگ (ن) ان کے اس رویے کو مدبرانہ انداز میں دیکھ رہے ہیں۔
نواز شریف بجٹ کی منظوری کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین کے دباؤ سے نکلنے کے لیے حکومت سے باہر ہونے کا اہم ترین فیصلہ کریں گے۔
ایک طرف نواز شریف پیپلز پارٹی کے رویے سے ناخوش ہیں تو دوسری جانب اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ شہباز شریف تین ماہ میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کی شرائط نہیں مانتے تو قرضہ نہیں مل سکتا اور اگر ان کی شرائط کے آگے سر جھکاتے ہیں تو عوامی بغاوت کا خطرہ ہے کیونکہ تحریک انصاف کا ناراض ووٹر سرگرم ہے۔اسی دوران بلاول زرداری کے جارحانہ رویے نے حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں مخصوص نشستوں کا بھی فیصلہ آنے والا ہے، اگر سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 51 کی تشریح کرتے ہوئے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو تفویض کر دیں تو شہباز شریف کی حکومت کو کسی بھی وقت آئین کے آرٹیکل 91 کے تحت اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بہانے گرایا جا سکتا ہے۔
اسی طرح چھ ججوں نے جو خط سپریم جوڈیشل کمیشن کو لکھا ہوا ہے، اس کا بھی فیصلہ اہم ترین نوعیت کا ہو گا۔
لاہور ہائی کورٹ نے آٹھ اضافی الیکشن ٹربیونلز تشکیل دے کر الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات مسدود کر دیے ہیں۔
جبکہ الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے احکامات کو الیکشن ایکٹ کی دفعہ 140 کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے معاملہ سپریم کورٹ پہنچانے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔
عدالتی بحران کا خطرہ لاحق ہونے سے شہباز حکومت مزید کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے اور نواز شریف بھی اپنی سیاسی مقبولیت کی بحالی کے لیے نئے بیانیے کے تحت عسکری اداروں کے ماضی کے فیصلوں پر شدید تنقید کر کے عمران خان کے ووٹ بینک کو لیول پلیئنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
موجودہ وزیر خزانہ نے وزیراعظم شہباز شریف کی تشکیل کردہ کفایت شعار کمیٹیوں کے فیصلے کو بھی بجٹ تقریر میں نظرانداز کر دیا۔ اس کے برعکس وزارت خزانہ کے اندرونی حلقوں سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ وزرا کی تنخواہ کا پیکج بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے۔
ماضی میں کسی حکومت کے وزیر خزانہ کا ایسا انوکھا پیکج دیکھنے میں نہیں آیا۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ حکومت، عدلیہ، وزارت خزانہ، سیاسی قوتوں کی مداخلت، کمزور ترین گورننس، عوام کا شدید غصہ، تاجر برادری کا خوف اور اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی، ان تمام عوامل کو بیرون ملک سرمایہ کار بھی دیکھ رہے ہیں اور دوست ممالک بھی اپنی اپنی جگہ پر حیران و پریشان ہیں۔
سعودی عرب جو پاکستان کا واحد سچا دوست ہے، وہ بھی پاکستان میں گورننس کے حالات کو دیکھ کر حیران ہیں۔
عدالتوں کے پیچیدہ نظام سے تحریک انصاف کے وہ ملزمان جو نو مئی کے قومی سانحے میں ملوث ہیں، ابھی تک مقدمے سے باہر ہیں۔ ان کو کسی عدالت نے سزا نہیں دی۔
اب وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں حکومت سے ایک نکاتی ایجنڈے پر مذاکرات کا امکان ہے اور اس کی پشت پر سپریم کورٹ کی فل کورٹ کھڑی ہے تاکہ ملک کو عدم سیاسی استحکام سے نکالنے کے لیے واحد راستہ نکالا جائے۔
دوست ممالک منتظر ہیں اور عالمی قوتیں بھی توقع کر رہی ہیں کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ کو ہی آگے آنا ہو گا۔
فیصلے کی راہ میں اگر کوئی آئینی و قانونی رکاوٹیں درپیش ہوئیں تو اس کا حل بھی آئین کی کسی شق سے نکالا جا سکتا ہے، جس پر آئین کے آرٹیکل تین، چار اور پانچ سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے
واپس کریں