دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یوم آزادی صحافت؛ سچ لکھنے کی آزادی کب اور کیسے ملے گی؟ اے وسیم خٹک
No image میں بلوچستان کے حقوق پر لکھنا چاہتا ہوں اور دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں سب سے بڑی زیادتی ان کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ میں پختون قوم کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو قلم بند کرنا چاہتا ہوں کہ دہشت گردی کا ایندھن انہیں ہی بنایا گیا۔
میں آج وہ لکھنا چاہتا ہوں جس پر مجھے کسی کی جانب سے روک ٹوک نہ ہو، میں اپنے بارے میں سب سچ لکھنا چاہتا ہوں کہ میں کیا ہوں اور نظر کیا آتا ہوں، میں سب اپنوں کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کس قسم کے ہیں اور کون سی اداکاری لوگوں کے سامنے کرتے ہیں۔ میں اپنے باس کو اس کے کارناموں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ کہاں کہاں پر کرپشن کرتا ہے اور کس کس کے ساتھ ہراسمنٹ کر رہا ہے۔ میں استاد کے کردار کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں کہ اُس کے اندر کتنا بڑا بھیڑیا چھپا بیٹھا ہے جو ذرا سا موقع ملنے پر سامنے آتا ہے۔ میں طالب علموں پر لکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کون سے ہتھکنڈے نمبر حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ میں بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کے تعلق کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کس طرح والدین کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔
میں دکاندار کی ملاوٹ، پولیس کی حرکتوں، سرکاری بابوؤں، وڈیرہ، خان، ملک، نواب، ارباب اور صاحب حیثیت لوگوں کے چہرے دنیا کو دکھانا چاہتا ہوں۔ میں چیریٹی کے نام پر لوگوں کو الو بنانے والوں کا کچا چٹھا کھولنا چاہتا ہوں۔ میں ملکی پالیسیوں پر کھل کر لکھنا چاہتا ہوں کہ کون پس پردہ ہے۔ میں سیاسی پارٹیوں اور ڈاکوؤں کے تعلقات پر قلم اٹھانا چاہتا ہوں۔ میں مذہب کی آڑ میں مذہبی جماعتوں کے استعمال پر لکھنا چاہتا ہوں۔ میں ہر محکمے میں چھپے کالے کوؤں پر لکھنا چاہتا ہوں۔ میں مدارس میں ہونے والے زیادتی کے واقعات کو قلم بند کرنا چاہتا ہوں۔ میں اُن رشتوں پر لکھنا چاہتا ہوں جن پر بھروسہ ہوتا ہے مگر عزتیں وہی تار تار کرتے ہیں۔ میں اُن غیرتوں اور اناؤں پر لکھنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں جو صرف اوروں کے لئے ہوتی ہیں، خود کے لئے نہیں ہوتیں۔
میں دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف لکھنا چاہتا ہوں، جن کی وجہ سے ملک تباہی کا شکار بنا۔ میں آرمی پبلک سکول میں ہونے والے حملے کے حقائق سامنے لانا چاہتا ہوں، اور اداروں کے سربراہوں کے سیاسی لوگوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ میں تمام سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل میں کمیشن کو سامنے لانا چاہتا ہوں۔ ہر ادارے کے پروجیکٹ میں کمیشن کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں۔ میں بیوروکریسی میں اپنے لئے لی جانے والی مراعات کے بارے لکھنا چاہتا ہوں کہ کس طرح وہ اپنے فائدے کے لئے خزانے کا منہ کھولتے ہیں۔
میں یونیورسٹیوں کے حالات کے بارے لکھنا چاہتا ہوں، تحقیق کے نام پر ہونے والے بلنڈرز کو سامے لانا چاہتا ہوں کہ پروفیسرز کس طرح خود کو پروموٹ کرنے کے لئے تحقیق کرتے ہیں۔ پیسوں پر تحقیق کرنے والوں پر لکھنا چاہتا ہوں۔ وائس چانسلروں کے کرتوتوں کو ہائی لائیٹ کرنا چاہتا ہوں کہ کس طرح وہ اصول پسند ہوتے ہیں۔ میں ہر بندے کا اوریجنل چہرہ سامنے لانا چاہتا ہوں جو وہ تنہائی میں ہوتا ہے، خود کے ساتھ ہوتا ہے۔
میں ججوں کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کس طرح بکتے ہیں اور کس طرح بڑے اُن سے فیصلے کرواتے ہیں۔ میں پراپرٹی ٹائیکون پر لکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کس طرح سادہ لوح عوام کو لوٹتے ہیں۔ میں میڈیا مالکان کے کالے دھندوں پر لکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کس طرح بلیک منی کو وائیٹ کرنے پر لگے ہیں۔ میں ڈراموں میں بڑے کردار حاصل کرنے والی اداکاراؤں پر لکھنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اس کے لئے کتنے ڈائریکٹرز کو خوش کیا ہے۔ میں اُن رائٹرز کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں جنہوں نے اپنے قلم کا سودا کیا ہے۔ میں ملک میں قائم منشیات، جسم فروشی، اسلحے کے اڈوں پر لکھنا چاہتا ہوں کہ اس کے پیچھے کون کون سے عناصر ہیں۔ میں سپورٹس ڈیپارٹمنٹس میں خواتین کھلاڑیوں کے ساتھ کوچز اور دیگر کی زیادتیوں کے عوض آگے بڑھنے پر لکھنا چاہتا ہوں۔ میں صحافت اور دیگر اداروں میں بڑی پوزیشن حاصل کرنے کے لئے خواتین کو پیش کرنے پر لکھنا چاہتا ہوں۔
میں بلوچستان کے حقوق پر لکھنا چاہتا ہوں اور دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں سب سے بڑی زیادتی ان کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ میں پختون قوم کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو قلم بند کرنا چاہتا ہوں کہ دہشت گردی کا ایندھن انہیں ہی بنایا گیا۔ میں پنجاب کے بڑوں کے بارے لکھنا چاہتا ہوں جو پختونخوا کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔ میں پاکستانیوں کو ان کی اوقات دکھانا چاہتا ہوں کہ وہ خلیجی ممالک میں جو بنگالیوں، فلپنائنیوں کے پیچھے پھرتے ہیں، یہاں اُن کی پیٹھ پیچھے اٗن کے اپنوں کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے۔ میں مسلمانوں کو لواطت اور ہم جنسی پرستی میں مبتلا ہونے والوں پر بتانا چاپتا ہوں کہ وہ قوم لوط سے کم نہیں ہیں۔
میں ہر اس برائی پر لکھنا چاہتا ہوں جو ہم میں بدرجہ اتم موجود ہے اور جو حقائق ہیں۔ یہ حقائق جب سامنے آتے ہیں تو یا تو بندہ نامعلوم ہو جاتا ہے یا پھر لاش کے ٹکڑے بھی نہیں ملتے۔ کیونکہ اوپر لکھے گئے ہر ایشو پر لکھتے ہوئے آپ کے ساتھ کوئی نا کوئی برا ہی کرے گا کیونکہ جب آئینہ دکھاؤ گے تو سب برا مانتے ہیں اور ان حقائق کو بتانے میں موت ہی مقدر ہوتی ہے مگر یہ حقائق ہیں اور حقائق ہمیشہ تلخ ہوتے ہیں۔
پھر بھی گذشتہ روز عالمی آزادی صحافت کا دن منایا گیا ہے جس پر کہیں بھی سچ نہیں لکھا گیا کیونکہ سچ لکھنے پر موت ہوتی ہے اور زندگی بڑی پیاری ہے۔ پھر بھی آپ سب کو عالمی آزادی صحافت کا دن مبارک ہو۔
واپس کریں