دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جیل سیاستدان کو ختم نہیں کر سکتی۔ فرحان ابنِ امان | عکس انقلاب
No image جيل عام انسان کے لیئے باعثِ شرمندگی جبکہ ایک سیاستدان کے لیئے کسی سعادت سے کم نہیں ہوتی کیوں کہ جب سوال ان کی کارکردگی پر آجائے تو وہ اپنے قومی جرائم کو قومی خدمت سمجھتے ہوئے فخر سے کہتا ہے کہ میں نے قوم کی خاطر زندگی کے اتنے دن جیل میں گزارے ہیں اور حقیقت یہ بھی ہے کہ جیل کسی بھی سیاستدان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ اگر صدر آصف علی زرداری جیل نا جاتے تو وہ کبھی صدر مملکت نہیں بن سکتے، یوسف رضا گیلانی بھی جیل جانے بعد ہی وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہوئے تھے اگر پاکستان کی حال ہی کی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو ایک سیاسی قیدی نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ ٹوڑ دیے ہیں وہ شخص جس کو تمام ملکی مقتدر قوتوں نے زمین بوس کرنا چاہا اسے جب جیل کی سلاخوں میں قید کیا گیا تو وہ شخصیت ایک ایسی قوت بن کر ابھرے ہیں جن کے آگے ملکی تمام قوتیں ناکام ہو چکی ہیں پورے ملک سے قیدی نمبر 804 کی صدائیں گونج رہی ہیں۔
عمران خان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کی ساڑھے تین سالہ دور حکومت نے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی عمران خان کی اُس دور حکومت نے کوئی خاص کارکردگی تو نہیں دکھائی ملکی تاریخ کی بدترین ناکام حکومت ثابت ہوئی حتیٰ کہ عمران خان جس بیانیے پر حکومت میں آئے تھے عوام کو جو سبز باغ دکھائے تھے تبدیلی کے نعرے کہ ساتھ جو جو وعدہ کیے تھے ان میں سے کوئی ایک وعدہ پایا تکمیل تک نہیں پہنچ سکا مگر تبدیلی کے نعرے کو ملک میں طنز اور مزاح کی صورت میں پیش کیا جانے لگا حتیٰ کہ تبدیلی کا لفظ تحریک انصاف کے لیے گالی بن چکا تھا اگر اُس حال میں عمران خان اپنا 5 سالہ حکومتی دورانیہ پورا کرتے تو تحریک انصاف اپنی سیاست اس طرح کھو چکی ہوتی کہ آئندہ کبھی عمران خان کہ لیے اقتدار تک رسائی حاصل کرنا ناممکن ہو جانا تھا مگر جیل نے اُسے زیرو سے ہیرو بنا دیا ہے یاد رہنا چاہیے کہ عمران خان پہلے بھی مقبولیت کی وجہ سے اقتدار میں آئے تھے پر اُس کی کارکردگی نے اس کو زیرو بنا دیا تھا پھر دوبارا جیل نے اس کو وہ مقبولیت دلائی ہے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا جس کی مثال 8 فروری 2024 کہ پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کہ نتائج اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ یہ دیکھنے کو ملا کہ ووٹر اپنے امیدوار کو ڈھونڈ رہا تھا ایسا الیکشن تھا جِس میں نا ووٹر کا لیڈر باہر تھا نا پارٹی کا ٹکٹ کسی کہ پاس تھا نا پارٹی جھنڈہ نا ہی کسی امیدوار کے پاس پارٹی کا نشان تھا ان تمام رکاوٹوں کہ باوجود تحریک انصاف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ابھر کر آئے ہے۔
پاکستان کی سیاست میں جیل نے بہت سے ناکارہ سیاستدان جن کا ملکی و ملی ترقی، خوشحالی، امن اور انصاف میں کوئی کردار نہیں ان کو بھی اعلیٰ پائے کے لیڈران کی صفوں میں شمولیت کا کردار ادا کیا ہے۔
اور اگر بطور زیادتی اس بات پر زرا غور کیا جائے تو ہمارے وطنِ عزیز کی یہ بھی بد قسمتی ہے کہ یہاں جیل سیاستدانوں کے لیے انتقامی کارروائیوں اور ذاتی بنیادیوں پر استعمال ہوتی ہے۔
اور یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں جیل عام آدمی عام شہری قیدی کے بعد اگر کسی کے لیے استعمال ہوتی ہے تو وہ صرف اور صرف سیاستدان ہیں۔جیل محض ذاتی اور سیاسی مخالفت میں سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھالنے کے لیے اور اپنے سیاسی مخالفین کو شکست اور انتقام کہ لیے چھہتر سالوں سے استعمال ہو رہی ہے اس کہ علاوہ سزائیں، جیلیں اور احتساب کبھی کسی جرنیل، جج یا بیوروکریٹس کا نہیں ہوتا ہمیشہ سیاستدانوں کی ہی تذلیل کی جاتی ہے یہی پالیسی فوجی آمروں نے اختیار کی ہر دور میں مقتدر قوتوں نیں سیاستدانوں بالخصوص اپوزیشن کو جھوٹے مقدموں اور جیلوں میں قید رکھا ہے جو کہ غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر جمہوری عمل ہے۔
ہر دور کے فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف شرع ہونے والی تحریکوں کہ لیڈران اور کارکنان کو جیل کی سلاخوں میں قید کیا گیا تھا وہ تحریک کسی جمہوری حکومت کی کرپشن، بید گورننس کے خلاف ہو یا فوجی آمر ضیاء الحق کے خلاف (ایم آر ڈی) کی تحریک ہو جس میں کافی سالوں تک بیگناہ سیاسی قیدیوں کو قید میں رکھا گیا تھا بالآخر وہ تحریک کامیاب ہوئی اور جمہوریت بحال ہوئی لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ مقتدر قوتوں کو اب اس بات سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ جیل سیاسی حریف کو شکست دینے کا حل نہیں ہے بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کو شکست اپنے کردار، وژن، منشور، بہتر پاليسيوں اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر دینی چاہیے اب پرانی سیاسی مخالفین کو جیلوں میں قید کرنے والی، نظر بند و جلاوطن، ظلم و تشدد اور انتقامی سیاست کو خیر آباد کرنا چاہیے اور اصولی نظریاتی اور جمہوری سیاست کرنی چاہیے۔
واپس کریں