دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
معائدہ کراچی اور ایکٹ چوہتر کی منسوخی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ
No image راولاکوٹ(آصف اشرف) معائدہ کراچی اور ایکٹ چوہتر کو سرعام آگ لگا دی گئی۔ بجلی بلز پر لگے ٹیکسوں اور گلگت بلتستان جتنی قیمت پر آٹے کشمیر میں فراہمی کرنے کے خلاف گیارہ مئی کو مظفر آباد کی طرف لانگ مارچ پر ریاستی جبر کی صورت چٹان بن کر مزاحمت کا اعلان۔ اکتوبر 1947میں بننے والی انقلابی حکومت کی بحالی کا مطالبہ ۔
اتوار کے روز راولاکوٹ میں جے کے ایل ایف کے چیئرمین صغیر خان کی قیادت میں سیاہ پرچم اٹھائے سینکڑوں افراد نے ایک ریلی نکالی جس کی شروعات حسین خان شہید کالج سے ہوئیں پولیس کی بھاری نفری اس موقع پر موجود رہی شرکا جلوس نا منظور نا منظور معائدہ کراچی نامنظور ایکٹ چوہتر غلامی کی لعنت وسائل ہمارے راج تمہارا نامنظور بجلی ہماری قبضہ تمہارا نامنظور بائی کاٹ بائی کاٹ بجلی بلز بائی کاٹ دہلی اسلام آباد نہیں کشمیر ہماری ماں ہے جیسے نعرے بازی کرتے شہر کی معروف شاہراؤں کا گشت کرنے کے بعد کچہری روڑ پر بڑے جلسہ میں بدل گے جہاں صغیر خان اور دیگر مقررین نے کہا کہ 1947میں مہاراجہ ہری سنگھ کے ٹیکسوں ظلم جبر کے خلاف کیپٹین حسین خان شہید کی قیادت میں ہمارے اسلاف نے بغاوت کر کے مسلح جنگ لڑی اور ایک انقلابی حکومت بنائی مگر 28اپریل 1949کو رسوائے زمانہ معائدہ کراچی کر کے اس حکومت کے سارے اختیارات چھین کر اس کو کھٹہ پتلی اور میونسپلٹی میں بدل دیا گیا بدبختی کہ ابراہیم خان ہمیشہ اس پر دستخط کرنے کی تردید کرتے رہے مگر جان بوجھ کر یہ لعنت ان کے گلے میں ڈال دی گئی۔
معاہدہ کراچی معائدہ امرتسر سے بڑی غلاظت اور لعنت ہے اس معاہدے سے پہلے کشمیر کی اپنی آزاد فوج تھی اس معاہدے کے نتیجے میں سیز فائر لائن پر جو محافظ بنائے گئے وہ ہر سال پھیچے دھکیلے جا رہے ہیں گزشتہ دنوں پونچھ سیکٹر کے کہیں مقامات بڑے قابض کے حوالہ کر دئیے جہاں ہمارے کھیل کے میدان اور چراگاہیں تھیں وہاں اب بھارتی مورچے تعمیر ہو رہے ہیں یہ سب معائدہ کراچی کے تحفے ہیں کسی میں ہمت نہیں کہ وہ پوچھے کہ یہ دستبرداری کس لیے کی ۔
صغیر خان نے کہا کہ ایکٹ چوہتر پر دستخط کر کے ممبران اسمبلی اور صدر وزیراعظم پر اسلام آباد سے مسلط غیر ریاستی وزیر امور کشمیر چیف سیکرٹری آئی جی سیکرٹری مالیات سیکرٹری صحت اصل اختیارات استعمال کر رہے ہیں اور ہمارے نام نہاد لیڈران اس زلالت کے بعد بھی ریاستی تشخص اور غیرت کے دعوے دار بنے ہیں مہاراجہ ہری سنگھ کے ٹیکسوں کی طرح آج بھی غریب عوام سے ٹیکس لیے جارہے ہیں گیارہ ماہ سے لوگ احتجاج پر ہیں مگر معائدہ کراچی اور ایکٹ چوہتر کو اعزاز قرار دینے والے''کسی ایک ممبر اسمبلی میں ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اسمبلی میں آواز اٹھائے لوگ پھر بھی ان لٹیروں کو لیڈر مانتے ہیں ان کو ناک منہ قرار دیتے ہیں چونتیس سو میگا واٹ بجلی پیدا کرکے بھی اپنی ضرورت کی چار سو میگا واٹ بجلی ہمیں نہیں ملتی اور دعوے کیے جارہے ہیں کہ ہم آزاد ہیں لوگوں کو غلط بریف کیا جاتا ہے کہ معائدہ کراچی ثبوت مہیاء کرتا ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے اصل تو اقوام متحدہ میں نام نہاد آزاد کشمیر اور بھارتی مقبوضہ کشمیر کی طرح جی بی کا متنازع ہونا اور وہاں بھی رائے شماری ساتھ ان علاقوں کے ہونا اس سرزمین کو کشمیر کا حصہ ثابت کر تا ہے۔
معاہدہ کراچی نہیں بلکہ یو این کی فوج کا جی بی میں ہونا اس کو متنازع ریاست جموں کشمیر کا حصہ ثابت کرتا ہے البتہ معاہدہ کراچی یہ ضرور ثابت کرتا ہے کہ معاہدہ کراچی کرنے والے نااہل اور کم ہمت تھے جو گلگت بلتستان کا نظام حکومت نہ چلا سکے اس کو حکومت پاکستان کے حوالہ کیا مقررین نے کہا کہ گیارہ مئی کے لانگ مارچ میں ہم غیر جانبدار ہیں ریاست نے طاقت کا استعمال کر کے اگر مظاہرین کو فتح کرنے جبر کی کاروائی کی تو پھر ہم میدان میں اتر جائیں گے حق پرست عوام کے ساتھ کوئی جبر نہیں ہونے دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر 47کی حکومت بحال ہوتی تو بھارت پانچ اگست کی بدمعاشی نہ کرسکتا نہ آج جموں کشمیر میں بھارتی الیکشن کا ڈھونگ رچایا جا سکتا اب بھی موقع ہے کہ ہمارے کاسہ لیس اور قصیدہ خوانی کرنے والے لیڈران معائدہ کراچی اور ایکٹ چوہتر کی وکالت ترک کر کے 24اکتوبر 1947کے ڈیکلریشن کی بحالی کا مطالبہ کریں اور حکومت پاکستان بھی عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا ادراک کرتے اس حکومت کو بحال کرے تاکہ لاکھوں کشمیری شہیدوں کے خون کا ضیائع روکا جائے اس موقع پر یاسین ملک شیخ نذیر سمیت دیگر اسیران وطن کی رہائی کا مطالبہ کرتے سارے اسیران کی استقامت کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
واپس کریں