دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وہ باتیں جو آپ چائے کی مدد سے جان سکتے ہیں
No image چائے کے بے شمار سماجی فوائد بھی ہیں۔ کسی آنے والے کو جلد از جلد چلتا کرنے کے لیے جھٹ سے چائے پیش کردی جاتی ہے، مہمان چِپکو ہو تو ایک پیالی پلانے کے بعد ‘اور چائے پیئیں گے؟ اور ‘ارے آپ کی چائے ٹھنڈی ہورہی ہے’ کہہ کر دراصل بڑے مہذب انداز میں پیغام دیا جاتا ہے ‘بس اب جان چھوڑ دو’۔

چائے کے ذریعے آپ دوسروں کی بابت بہت کچھ جان سکتے ہیں، جیسے

‘شکر مت ڈالیے گا’ کا مطلب ہے مہمان ذیابیطس کا مریض ہے، اب ڈھیر ساری مٹھائی لاکر سامنے رکھ دیجیے، اس مہنگائی میں آپ کی مہمان نوازی کا بھرم بھی رہ جائے گا اور اگلے مہمانوں کے لیے مٹھائی جوں کی توں بچ بھی جائے گی۔

چائے طشتری میں ڈال کر پینے کا مطلب ہے کہ مہمان جلدی میں ہے، یہ جاننے کے 2 فائدے ہیں، ایک تو اسے کھانے پر روکنے کی کوشش کیجیے، یہ کوشش ناکام ہوگی لیکن آپ کو اچھا میزبان ثابت کردے گی، دوسرے آپ سمجھ جائیں گے کہ مطلب کی بات فوری کرلی جائے۔

اسی طرح اگر چائے سُڑپ سُڑپ کرکے پی جارہی ہے تو سامنے آجائے گا کہ چائے نوش کا سماجی اور تعلیمی پس منظر کیا ہے۔ یوں خاص طور پر شادی کے رشتے کے معاملے میں چائے مددگار ثابت ہوتی ہے۔

کسی کے گھر پہلی بار جانے پر ریلوے اسٹیشنوں والی چائے ملے تو طے ہوجائے گا کہ ان کے ہاں کم کم ہی جانا ہے۔

چاہے آپ نے چائے زہر مار کی ہو لیکن ‘واہ کیا مزے دار چائے ہے’ کا جھوٹ بول کر آپ اسے بنانے والی کا دل موہ لیتے ہیں۔ لیکن خیال رہے دل زیادہ مت موہ لیجیے گا ورنہ یہ چائے ہر ناشتے میں آپ کا مقدر نہ بن جائے۔

‘میں چائے نہیں پیتا’ کا اعتراف آپ کو بتا دے گا کہ موصوف کو شعر و ادب، آرٹ کا چسکا نہیں، چیک، رسید اور واٹس ایپ میسج کے سوا کچھ لکھنے اور ٹی وی کے ٹکر اور بیوی کے ‘کب آئیں گے’ جیسے ایس ایم ایس کے سوا کچھ پڑھنے سے دلچسپی نہیں۔

چائے کے مزید فائدے اس مشروب کے اشتہارات بتاتے ہی رہتے ہیں، جیسے یہ جاتے شوہر کو روکنے اور روٹھی بیوی کو منانے کے کام آتی ہے، خاندان والے ایک دوسرے سے لاکھ بے گانا پن برتیں، لیکن اگر ساتھ بیٹھے دانت نکالے چائے پی رہے ہوں تو ماننا پڑے گا کہ ‘یہی تو ہے وہ اپنا پن’۔

ان اشتہاروں سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ میاں بیوی کے رشتے میں بس ‘تم، میں اور ایک کپ چائے’ کافی ہے، باقی سب بھاڑ میں جائے، شاپنگ، امی کے گھر چلیں اور دیر سے کیوں آئے سب اضافی ہے۔ کسی اشتہار میں ہم چائے پی کر ہی ٹھیک سُر لگانے کا کرشمہ دیکھتے ہیں، تو کسی سے انکشاف ہوتا ہے کہ چائے ہی گھر بناتی ہے باقی سب کہانیاں ہیں۔


چائے کے ایک اشتہار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بس چائے ہی ہماری تہذیب کی محافظ ہے اور مہمانوں کو کالی کولڈ ڈرنک کی جگہ چاہے دودھ کی کمی کی وجہ سے ‘کَل موہی’ اور بدمزہ چائے بھی پیش کی جائے تو ہماری تہذیب بچ جائے گی ورنہ آپ اپنے خنجر سے نہیں تو کولڈ ڈرنک میں ڈوب کر خودکشی کرلے گی۔

یوں ہم اس حقیقت سے بھی آشنا ہوتے ہیں کہ انگریزوں کے برصغیر میں چائے لانے سے پہلے ہم تہذیب سے ناآشنا تھے۔ چائے کے یہ کمالات صرف اس کے اشتہارات تک محدود نہیں۔ ایک اور پروڈکٹ کے اشتہار سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ کس طرح کوئی لڑکی آنے والے ‘رشتے’ پر چائے گرانے کے بعد آناً فاناً اس کی قمیض دھو کر رشتہ پکا کرا سکتی ہے۔

تحریرعثمان جامعی۔ڈان نیوز
واپس کریں