دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ملکی ترقی اور نجی شعبہ
No image وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز کراچی میں شہر کی معروف کاروباری شخصیات اور سندھ کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں واضح کیا کہ ملکی ترقی کیلئے مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ معاشی بحالی کی کوششوں میں کاروباری نمائندوںسے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے وزیر اعظم نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت انہیں مایوس نہیں کرے گی‘نجکاری کا عمل انتہائی شفاف ہو گا اور بیورو کریسی کی رکاوٹوں کو حائل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ قوموں کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، ہمیں ملکی مسائل کے حل کیلئے مل کر آگے بڑھنا ہے اور ملک کا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہے۔ یہ تہیہ کرنا ہے کہ آئندہ پانچ سال کے دوران اپنی برآمدات کو دوگنا کریں گے اورزرعی شعبے میں انقلاب لائیں گے۔ مشکلات ضرور ہیں لیکن مسائل پر قابو پانا ناممکن نہیں۔میاں شہباز شریف نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ حکومت کا کام پالیسیاں دینا ہے، کاروبار کرنا نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری اور ایئرپورٹوں کی آؤٹ سورسنگ کے معاملات میں جوائنٹ وینچر بنائے جا سکتے ہیں، ڈسکوز کی نجکاری سے متعلق فیصلہ بھی مشاورت سے کیا جائے گا لہٰذا نجی شعبہ اس حوالے سے آگے بڑھے۔ کاروباری برادری کیساتھ 2700ارب روپے کے معاملات عدالتوں میں زیرسماعت ہیں، ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ قرضے لے کر زندگی گزارنی ہے یا عزت و وقار کے ساتھ جینا ہے، کاروباری برادری حکومت کا ساتھ دے، حکومت انہیں مایوس نہیں کرے گی۔ وزیر اعظم کے مختصر خطاب کے بعد شرکائے اجتماع کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔اس پر صنعتی رہنماؤں کی جانب سے وزیر اعظم کے عزم کا خیر مقدم کرنے کے ساتھ ساتھ شکوہ کیا گیا کہ توانائی کے ناقابل برداشت نرخوں اور متضاد حکومتی پالیسیوں کے باعث موجودہ حالات میں کاروبار کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے ۔ علاوہ ازیں ہموار ترقی سیاسی استحکام کے بغیر ناممکن ہے اور اس کیلئے اپوزیشن اور حکومت میں مفاہمت ضروری ہے۔ آئی ایم ایف سے معاملات کامیابی کے ساتھ آگے بڑھانے ، روپے کی قدر مستحکم رکھنے، مہنگائی پر قابو پانے اور بیرونی سرمایہ کاری ملک میں لانے کی حکومتی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے سربراہ مملکت کی حیثیت سے سیاسی استحکام کی خاطر پہل کرکے تحریک انصاف کے قائد سے بات چیت کرنے اور بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنے کی تجاویز شرکائے اجتماع کی جانب سے پیش کی گئیں۔ نجی شعبے کے نمائندوں نے واضح کیا کہ توانائی کے نرخوں میں وہ کوئی سبسڈی نہیں چاہتے اور سو فی صد ادائیگی کرنے پر تیار ہیں لیکن صنعتوں کا پہیہ چلتا رکھنے کیلئے گیس اور بجلی کے نرخ من مانے نہیں بلکہ جائز اور منصفانہ ہونے چاہئیں ۔ اس موقع پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ’’ یہ ملاقات ایک جامع اقتصادی ترقی کے روڈ میپ کے لیے اعلیٰ کاروباری دماغوں کو سننے، ان کی باتوں کو جذب کرنے اور عملی جامہ پہنانے کی کوشش تھی۔آپ سب کاروبار کے بارے میں بہت اچھے دماغ ہیں۔آج ہمیں آپ کی ضرورت ہے کہ آپ آگے بڑھیں اور حقیقی صنعتی اور زرعی ترقی پر توجہ دیں ۔ اگلے پانچ برسوں میں برآمدات کو دوگنا کریں۔ یہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ میں آپ کی بات سنوں گا اور اسے عملی جامہ پہنانے کا منصوبہ بناؤں گا۔‘‘بلاشبہ آج کی دنیا میں قوموں کی ترقی میں نجی شعبہ ہی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ملک کی برآمداتی آمدنی اور روزگار کے مواقع میں اضافہ اس کے بغیر ممکن نہیں۔ انیس سو ستر کی دہائی میں نیشنلائزیشن کے تباہ کن تجربے سے پہلے نجی شعبے ہی کے سبب پاکستان خطے کے تمام ملکوں سے زیادہ تیزی سے ترقی کررہا تھا لہٰذا دوبارہ بھی ایسا ہوسکتا ہے تاہم نجی شعبے کو کاروباری آزادی کے ساتھ ایسے منصفانہ قوانین کا پابند بھی بنایا جانا ضروری ہے جو صنعتی کارکنوں اور عوامی مفادات کے تحفظ کے یقینی طور پر ضامن ہوں۔
واپس کریں