جموں و کشمیر لبریشن سیل اور ویمن یوینورسٹی آزاد کشمیر کے زیر اہتمام انٹرا یونیورسٹی تقریری مقابلہ
جموں و کشمیر لبریشن سیل ماہ مئی کے وسط میں آل آزاد کشمیر انٹر یونیورسٹیز فائنل تقریری مقابلہ منعقد کر رہا ہے اس سلسلے میں آزاد کشمیر کی چھ سرکاری یونیورسٹیز کے درمیان مقابلہ ہونا ہے۔تمام یونیورسٹیز میں مرکزی مقابلہ انگلش میڈیم میں رکھا گیاہے۔ ذرائع کے مطابق انگلش میڈیم میں ٹاپک رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ نوجوانوں کی آواز مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بیرون ممالک تک یوٹیوب،فیسس بک کے ذریعے اس ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں پہنچائی جاسکے ۔ فائنل تقریری مقابلہ میں طلباء کی تقاریر کی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھرپور تشہیر کیے جا نے کا لائحہ عمل تشکیل دیا گیا ہے ۔
بعنوان Demographic Engineering by India in IIOJK & It's impact on Right to self determination منعقد کیا گیا ۔جس میں ویمن یونیورسٹی کی طالبات نے حصہ لیا.
تقریری مقابلہ میں ڈائریکٹر جموں وکشمیر لبریشن سیل راجہ محمداسلم خان نے بطور مہمان خصوصی شریک ہوئےجبکہ تقریب کی صدارت ڈین فیکلٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر سمیع اللہ خان نے کی ۔ان کے علاؤہ تقریب میں ڈائریکٹر سٹوڈنٹس آفئیرز ڈاکٹر شازیہ ، فوکل پرسن وویمن یونیورسٹی باغ فریال قمر ،ڈاکٹر مسعود اور لبریشن سیل سے نعمان منور عباسی ،فیکلیٹی ممبران ویمن یونیورسٹی باغ اور طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی.
تقریری مقابلہ میں ویمن یونیورسٹی باغ کی طالبہ کائنات صدیق نے پہلی پوزیشن دوسری پوزیشن مہوش سعید اورتیسری پوزیشن عائشہ اعجاز نے حاصل کی جبکہ ججز کے فرائض
ڈاکٹر طاہرہ بتول اور
ڈاکٹر منزہ ظاہرہ نے سر انجام دیے ۔مقررین طالبات نے اپنی تقاریر میں کہا کہ مودی جموں وکشمیر میں ہندوتوا کی سوچ کو پروان چڑھا رہا ہے. 5 اگست 2019 کے بعد مودی حکومت کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے میں لگی ہے اور 40 لاکھ سے زائد غیرریاستی ہندوؤں کو کشمیر کا ڈومیسائل جاری کیا گیا ہے۔
ہندوستان مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں کر رہا ہے جسے دنیا بھر میں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے. طالبات سوشل میڈیا پر ہندوستان میں غیر انسانی سلوک کو دنیا بھر کے سامنے لانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں گی. ہندوتوا کا خطرہ نہ صرف کشمیر میں مسلمانوں کو ہے بلکہ یہ ہندوستان کے اپنے قوانیں کی بھی صریح خلاف ورزی ہے. طالبات نے کہا کہ مودی حکومت نے کشمیر میں ظلم کے پہاڑ توڑ دیے ہیں اور 370 اور 35 اے کو ختم کر کے کشمیر میں ہندوؤں کو آباد کیا جا رہا جس سے وہاں کی آبادی کا تناسب بگھاڑا جارہا ہے. پچھلے 04 سالوں میں ہزاروں کی تعداد میں غیر قانونی طور پر ہندوؤں کو آباد کیا گیا ہے.
ڈائریکٹر کشمیر لبریشن سیل راجہ محمد اسلم خان نے وائس چانسلر ویمن یونیورسٹی اور ان کے سٹاف کا شکریہ ادا کیا جہنوں نے کشمیر لبریش سیل کی تحریک پر آج اس تقریری مقابلہ کا انعقاد کیا۔ انہوں نے تقریری مقابلہ کے مقاصد پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں مودی حکومت کی غیر قانونی پالیسیوں اور وہاں ہونے والے مظالم اور ہندوتوا سوچ کو دنیا میں اجاگر کرنے کے لیے پڑھے لکھے نوجوانوں کو سامنے لانا اور سوشل میڈیا پر ہندوستانی پروپیگنڈا کا توڑ پیدا کرنا ہے. انہوں نے کہا کہ دنیا پڑھے لکھے اور نوجوان لوگوں کی بات کو بہتر انداز میں سمجھ سکتی ہے جس کے لیے یہ مقابلہ بھی انگلش میں رکھا گیا تاکہ تمام ممالک میں ہمارے نوجوان لوگوں کی بات کو سنا اور سمجھا سکیں۔
بنیادی طور پر مسلہ کشمیر کے حوالے سے آواز اٹھانا اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ممکنہ حل کے لیے اقدامات اٹھانے کے لیے آواز پیدا کرنے کے لیے ہم سب نے مل کر کوشش کرنی ہے جس میں آپ طلبہ کی اور نوجوانوں کی بڑی اہمیت ہے اور بحثیت کشمیری ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرون ممالک ویسٹرن اور یورپین ممالک نوجوانوں کی راۓ کو بڑی فوقیت دیتے ہیں ۔ ہم سب نے ملکر مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری بھارتی مظالم اور بلخصوص پانچ اگست 2019 کے ہندوستان کے غیر آئینی اقدامات کے خلاف آواز بلند کرنی ہے اور اس کا مقابلہ کرنا ہے۔
راجہ اسلم خان نے کہا کہ طالبات نے اپنی تقاریر میں مقبوضہ کشمیر میں مودی کی ہندوتوا نظریہ کی پروموشن کی وجہ سے کشمیر سمیت پورے خط میں پیدا ہونے والے خطرات پر روشنی ڈالی ہے.
تقریری مقابلہ میں شریک طالبات کی پرفارمنس اور پوزیشنز کو واضح کرنے کے لیے تین ججز شامل تھے. آخر میں ڈاٸریکٹر راجہ محمد اسلم خان نے فیکلٹی ممبران کے ہمراہ طالبات میں تعریفی اسناد بھی تقسیم کیں۔
واپس کریں