دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مومنوں تمھیں عید اور شیطان کی رہائی مبارک
No image خُدا نے چاند دیکھتے ہی فرشتے کو حُکم دیا کہ جاؤ اُس ملعون ابلیس کی زنجریں کھول آؤ۔ دھیان رھے جلدی واپس آنا پچھلی بار کی طرح اُس کی باتیں سُننے نہ بیٹھ جانا۔ فرشتے نے حُکم پاتے ہی پرواز بھری اور گہرے سمندر کے بیچ و بیچ اُتر گیا ، جہاں ابلیس پچھلے ایک مہینے سے زنجیروں میں جکڑا بےمعانی قید کاٹ رہا تھا۔فرشتے نے لینڈ کرتے ہی اپنے پر سمیٹے اور چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتا ابلیس کے قریب پہنچا۔
ابلیس جو ٹخنوں کا محراب بنائے اُن میں سر دیٸے بیٹھا تھا۔ آہٹ سُن کر اس نے دھیرے سے سر اُٹھایا اور فرشتے کو اپنے سامنے پایا۔ فرشتے نے ایک نگاہ اُس کے کھنڈر سراپے پر ڈالی۔
بڑھی شیو، لمبے الجھے بکھرے بے ڈھنگے بال۔ لاغر جسم۔ قید کی نقاہت کا بیاں دیتی مُرجھائی آنکھیں۔
فرشتے سے ابلیس کی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔ اِس سے پہلے کہ اُس کی آنکھوں میں اُتری نمی چہرے پر واضح ہوتی فرشتے نے آنکھیں ابلیس کے چہرے سے ہٹائی اور اُس کے پاؤں کی زنجیریں کھولنے کے لئے جُھکا ۔
یا ابلیس ! ربِ کائنات کے حُکم سے زنجیریں کُھل گئی ہیں۔ تُم اب آزاد ہو اور واپس انسانوں کی بستی میں جا سکتے ہو۔ یہ کہتے ہی فرشتہ تیزی سے واپس جانے کے لئے مُڑنے لگا لیکن ابلیس نے اپنی پوری طاقت حلق میں جمع کی اور مریل سی آواز سے فرشتے کو پکارا ،" پیارے دوست ! زرا ٹھہر کر بات سنتے جاؤ"۔
رشتہ جو اُس سے پہلی نظر ملاتے ہی بکھر چُکا تھا اُس کے لئے دوبارہ مُڑ کے اُس کی یہ حالت دیکھنا نہایت تکلیف دہ ہوسکتا تھا۔ مگر ابلیس سے برسوں کی رفاقت اور اپنے نورانی دل کے ہاتھوں مجبور وہ رُکا اور مُڑا اُس کے قریب آکے بیٹھ گیا۔
"میرے دوست کیسے ہو تُم "؟ ابلیس نے ملائمت بھرے انداز سے پوچھا۔
"خدا کی رحمت ھے۔" فرشتے نے جواب دیا۔
دونوں طرف ایک گہری خاموشی چھا گئی۔
"میرا حال نہیں پوچھو گے؟ "
ابلیس نے بجھی آواز میں کہا۔
اس سوال نے فرشتے کو اندر تک لرزا کے رکھ دیا۔ اُس کا دل پسیج گیا ابلیس کو بےاختیار گلے سے چمٹایا اور دونوں جانب آنسوؤں کا سمندر اُمڈھ آیا دونوں ایک دوسرے کا حال بخوبی جانتے تھے۔ روتے روتے دونوں کی ہچکی بندھ گئی۔
رشتہ اُسے گلے لگائے بے اخیتار کہے جارہا تھا کہ دوست مُجھے معاف کردو میں مجبور تھا مُجھے معاف کردو۔ ابلیس نے اُس کی پیٹھ تھپکاتے ہوئے چُپ کروایا۔ میرے دوست ! میرے عزیز ! میں جانتا ہوں تُممارا کوئی اختیار نہیں مُجھے تُم سے تو کوئی بھی گلہ نہیں تُمہارے یہ آنسو تمہاری محبت اور بےبسی کا ثبوت ہیں بس اب انہیں قابو کرو دیکھو مُجھ سے اور رویا نہیں جائے گا۔
رشتے کی آنکھوں میں لالی اُتر آئی اُس نے آنسو پونچھے اور کہا،
ابلیس ہماری سالوں کی رفاقت رہی میں اور تُم خُدا کے چہیتے رھے سجدوں کے نشان آج تک تمہاری پیشانی پہ ِبھی ثبت ہیں اور دیکھو میری پیشانی بھی اُس رب کے حضور سجدوں میں نرم ہوگئی۔ ہماری زندگیوں میں آدم سے پہلے آرام تھا فرشِ الٰہی تلے ہم رب کی وحدانیت کی تسبیح کرنے میں دن رات زرا برابر کوتاہی نہ برتتے تھے۔ اور پھر ایک دن خُدا نے نجانے کیوں آدم کا پُتلا گھڑ لیا اور ہمیں پہلی بار کسی غیراللہ کو سجدے کا حُکم ملا۔ ہم حیران تھے لیکن حیرانی ہماری مجبوری سے کہیں زیادہ حاوی تھی اتنی حاوی کے ہم بغیر آدم کا سراپا دیکھے اُس کے آگے جُھک گئے اور وہی لمحہ تمہاری ہم سے جُدائی طے کر چُکا تھا۔ تُم کیا جانو میں کس دل سے آج بھی اُس لمحے کو یاد کرتا ہوں جب تّم نے سر جھکانے سے انکار کیا اور اُس پتلے کو دیکھا اور پہلی بار خُدا سے سوال کیا۔
ہم سب سجدوں میں پڑے کس قدر ڈرے ہوئے تھے۔ تمہاری خُدا سے تکرار سُن کر اُس دن تُمہارے لہجے کی بغاوت نے خاموشی میں ڈوبے عرش میں تہلکہ مچا دیا۔ ہم نے خدا کے علاوہ پہلی بار کسی کی آواز بلند ہوتی سُنی۔ اور جو آخری الفاظ تُم نے کہے اُن کی گونج آج بھی عرش پر ہم سُنتے ہیں ۔
"میں آگ سے بنا اِس خاک کو سجدہ نہیں کروں گا "
خُدائے عظیم کی قسم یہ الفاظ سب فرشتوں کو ویسے کے ویسے آج بھی یاد ہیں ۔
فرشتہ اشکوں میں ڈوبا بولتا جارہا تھا اُس نے دل کا سارا غُبار نکال دیا۔
ابلیس جو سر جُھکائے سب سُن رہا تھا مخاطب ہوا میرے بھائی چھوڑو پُرانی باتیں تمہاری یہ ہمدردانہ باتیں میری مہینے بھر کی قید کی تکلیفوں پر مرحم رکھنے کے لئے کافی ہیں تُمہارا شُکریہ تُم اب واپس جاؤ اس سے پہلے کہ خُدا تُمہیں بلوانے کسی کو بھیجے اور تُم پر غصہ ہو۔
بس خُدا کو میرا سلام کہنا اور میرا پیغام دے دینا کہ میں آج بھی اپنے اُس فیصلے پر قائم ہوں اور اگر وہ دوبارہ کوئی پُتلا بنا کر اس شرط پر مجھ سے سجدہ کرنے کا کہے کہ وہ مُجھے بخش دے گا تو میں تب بھی انکار کروں گا۔ خُدا سے کہنا میرا فیصلہ دُرست تھا میں حق پہ تھا اُس خاک کے پتلے کی نہ اُس وقت یہ اوقات تھی اور نہ آج وہ اس درجے پر پہنچا ھے کہ یہ ابلیس اُسے سجدہ کرے۔ خُدا کو کہنا وہ چاہے تو مُجھے قیامت تک یہ زنجیریں پہنا کر اِس قید میں رکھ لے میں انسانوں کی بستی سے ویسے بھی اُکتایا ہوا ہوں مگر قیامت کے روز اِن خاک کے پُتلوں کو بہکانے کے الزام میں مُجھے سزا نہ دے۔ یہ الزام میری توہین ھے۔ مُجھے میرے اُس عظیم انکار جسے وہ گناہ کہتا ھے اس کی سزا دے جو میں قبول کرتا ہوں۔ تُم جانتے ہو خُدا جانتا ھے پورا عرش یہ بات جانتا ھے کہ ابلیس اِن خاک سے بنے انسانوں کو ایسے گھناؤنے کاموں کے لئے نہیں بہکا سکتا۔ اس کی فطرت ہی ان کاموں کے مُخالف ھے۔
ابلیس بچوں کے سامنے ماں کا ریپ کروانے کی ترغیب نہیں دے سکتا۔ ابلیس زمین کے ٹکڑے کی خاطر بھائی کا خون کرنے پر آمادہ نہیں کروا سکتا۔ ابلیس کسی مرد سے معصوم لڑکیوں کا چہرہ جلانے کے لیے تیزاب گردی نہیں کروا سکتا۔ ابلیس جنگوں میں ماؤں کے جوان سپوت چھلنی نہیں کروا سکتا۔ ابلیس آدم کے ساتھ زمین پر اُترا لیکن اُس میں آدم کی خصلت نہیں ھے۔ ابلیس صرف انکاری ھے۔ ابلیس صرف باغی ھے ابلیس صرف انسانوں کو اپنے حق کے خلاف ھونے والے ہر فیصلے پر ہر مخالف اقدام پہ بغاوت پر اکساتا ھے۔ یہی ابلیس کا زمین پر کام ھے، جس کی سزا کے لیے وہ حاضر ھے۔ لیکن ابلیس رب کے خلیفوں کے وہ سارے گناہ جو خالص اُنہوں نے اپنی مرضی اور اپنی انسانی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کیے اُن سارے گناہوں کو رد کرتا ھے۔ اُسے روزِ محشر ان کاموں کے الزام میں زلیل نہ کرے اپنے خلیفوں کا کِیا مُجھ پر مت ڈالے کیونکہ ابلیس کل بھی اُن سے افضل تھا اور آج بھی اُن سے کئی گُنا افضل ھے۔
خدا حافظ میرے پیارے فرشتے دوست ۔
واپس کریں