دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
77 سالہ پاکستان 47 سے نہیں نکلا ۔محسن گواریہ
No image پاکستان 77 برس کا ہو گیا ہے، ہم نے 27رمضان المبارک کو ہی آزادی حاصل کی تھی،میں 27رمضان کو ہی یہ سطور لکھتے سوچ رہا ہوں ہم 47 میں آزاد ہوئے، مگر ابھی تک 47 سے آگے نہیں بڑھ سکے،کل کلاں کو الیکشن میں کوئی نیا فارم47 کی جگہ لے لے تو اور بات ہو گی،مگر ابھی تک لگتا ہے کہ بحیثیت قوم ہم مسافرِ گم گشتہ راہ ہیں، ہم نے ایک الگ وطن حاصل تو اس لیے کیا تھا کہ یہاں ہم آزادی پا سکیں گے، اپنے معاملات خود دیکھ سکیں گے، اپنی پالیسیاں خود مرتب کر سکیں گے اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنا سکیں گے، مگر یہ نہ تھی ہماری قسمت، ایک زندہ اور سربلند قوم کی طرح کیسے جیا جا سکتا ہے؟ ہم 77 سالوں میں یہ راز نہیں پا سکے۔ ستمبر 1948ء میں حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی وفات کے ساتھ ہی ریاستی اور قومی معاملات کا جو توازن بگڑنا شروع ہوا تو پھر بگڑتا ہی چلا گیا، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، بلکہ پہلے سے زیادہ رفتار کے ساتھ،منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے؟کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ کسی نے اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی،جو بھی آیا اُس نے اپنا وقت پورا کرنے کی کوشش کی، وقتی پالیسیاں بنائی اور اپنائی گئیں ملک کو ترقی کی راہ پر کیسے گامزن کرنا ہے اس کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ1947ء میں آزادی کے وقت اس نئی ریاست میں بائی ڈیفالٹ کچھ خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں، وقت کا تقاضا تھا کہ ان خرابیوں کو دور کیا جاتا، مسائل کو حل کیا جاتا لیکن ایسی کوئی کوشش ہوتی نظر نہیں آئی، نتیجہ، ایک بکھری ہوئی قوم اور ایک خستہ حال ریاست ہمارے سامنے ہے۔ حالات اِس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ سیاست دانوں کو سیاست دانوں پر سیاسی پارٹیوں کو سیاسی پارٹیوں پر حکمرانوں کو اپوزیشن پر اور اپوزیشن کو حکمرانوں پر کوئی اعتبار کوئی اعتماد نہیں، اگر کوئی اعتماد ہوتا تو نگران سیٹ اپ والا معاملہ پوری دنیا میں صرف ہمارے ملک میں نہ ہوتا کہیں اور بھی اس پر عمل کیا جا رہا ہوتا، اور حالت یہ ہے کہ ان سارے اقدامات اور انتظامات کے باوجود کوئی انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ آٹھ فروری کو ایک نگران سیٹ اپ کے تحت ہونے والے انتخابات کے نتائج پر کوئی بھی خوش نہیں ہے، جو جیتے ہیں وہ بھی احتجاج کر رہے ہیں اور جو ہارے ہیں وہ بھی احتجاجی مظاہروں اور احتجاجی تحریکوں کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ 1947ء میں حاصل کی گئی آزادی آج فارم 47 میں کہیں اٹک کر رہ گئی ہے اور کسی کو یہ معلوم نہیں کہ آگے کس طرف بڑھنا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ملک کسی دوراہے پر نہیں، بلکہ ایک چوراہے پر کھڑا ہے اور اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں عوام بھی، حکمران بھی اور وہ بھی جنہوں نے اس ملک اور عوام کے حوالے سے ناقص فیصلے کیے اور وہ بھی جنہوں نے مناسب وقت پر ٹھیک فیصلے کرنے سے ہاتھ کھینچے رکھا۔بیوروکریسی کی حالت سب سے قابل رحم ہے، آر اوز کی ذمہ داریاں ادا کرنے والے 70فیصد افسر الیکشن کے دو ماہ بعد بھی شدید تناؤ اور پریشانی کا شکار ہیں، شاید اس لئے کہ ان سے کیا کروایا گیا اور انہوں نے کیا کِیا؟ ان پرالزام ہے کہ انہوں نے دباؤ میں آ کر فارم 45 اور فارم 47 میں تبدیلیاں کیں جن کی وجہ سے عوام کا مینڈیٹ تبدیل ہوا اور اب یہ آر اوز عوام میں نہیں جا سکتے لوگوں کا سامنا نہیں کر سکتے، حتیٰ کہ وہ عوامی قسم کے اجلاسوں میں بھی شرکت نہیں کر سکتے، عوام کے جذبات کا غلط اندازہ نہیں لگانا چاہئے، لیکن لوگ ابھی تک بپھرے ہوئے ہیں۔ اب،یہ افسر آراوز اس صورت حال سے نکلنا چاہتے ہیں،وہ اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرنا چاہتے ہیں، وہ دباؤ والی ڈیوٹی اور بد ترین ماحول سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اکثر افسر بتاتے ہیں کہ کوئی بھی دِل جمعی سے اپنا کام نہیں کر پا رہا،وہ چھٹی مانگ رہے ہیں یا اپنی ٹرانسفر کر کرانا چاہ رہے ہیں، چلیں آر اوز کی تو ٹرانسفر کر دی جائے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ اس ملک کے عوام اور خود ریاست جس تناؤ کا شکار ہے اس میں سے اسے کیسے نکالا جائے؟عوام اور ریاست کو اگر اس تناؤ سے نکال دیا جائے تو وہ وعدہ کرتے ہیں کہ یہ بالکل نہیں کہیں گے کہ مجھے کیوں نکالا،اور تو اور مجھے کیوں نکالا کی صدائیں لگانے والا بھی اب خود ہی نکلنا چاہ رہا ہے۔ اسی کشاکش کا نتیجہ ہے کہ 77 برس کے آزادانہ دور میں کوئی ایک بھی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا، اس میں ساری کوتاہیاں طالع آزماؤں کی نہیں، سیاسی جماعتیں اور سیاستدان بھی حالات کو اس نہج تک پہنچانے میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ ہم اس بات پر تو خوشیاں مناتے ہیں کہ فلاں دور کی جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی لیکن اس بات پر افسوس نہیں کرتے کہ عوام کے منتخب کردہ کسی بھی سربراہ حکومت کو اپنی آئینی میعاد پوری نہیں کرنے دی گئی، اس سے بھی بڑی خرابی یہ ہوئی کہ آئین کے سامنے قانون کے دروازے پر سب برابر نہ رہے، کچھ لوگوں اور کچھ شعبوں نے خود کو آئین سے ماورا قانون سے بالاتر قرار دلوا لیا اور وہ ہر طرح کے احتساب سے بھی بالاتر ہو گئے، جبکہ آئین اور قانون کا نفاذ بلکہ بھرپور نفاذ عام لوگوں تک محدود ہو گیا۔ پھر نظریہ ضرورت نے بھی اس ریاست یہاں کے حکمرانوں یہاں کے آئین و قانون اور عوام کو جو نقصان پہنچایا اس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔ پوری پوری اسمبلی کو بیک جنبش ِ قلم برخاست کر دیا جاتا رہا اور کوئی کچھ بھی نہ کر سکا کچھ بھی نہ بول سکا۔اِس ساری کھینچا تانی، چھینا جھپٹی، کشمکش، داؤ پیچ، الجھنوں کی آندھی اور مسائل کی دلدل کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں لا قانونیت انتہا کو پہنچ گئی ہے رشوت، کرپشن، سفارش، اقربا پروری اور میرٹ کو ڈی میرٹ کرنے کی انتہا ہو گئی، جو سیدھی راہ پر چلنے والا تھا، ایماندار تھا، ٹو دی پوائنٹ تھا وہ خود کو اس نظام میں مس فٹ محسوس کرنے لگا، معیشت کی حالت یہ ہو گئی کہ ہم بار بار کشکول پکڑے عالمی اقتصادی اداروں کے در پر دست طلب دراز کیے کھڑے نظر آتے ہیں۔دوست ممالک سے حاصل کئے گئے قرضے ری شیڈول کرواتے ہیں اور آئی ایم ایف سے اگلے قرضے کے حصول کے لئے اس کی شرائط تسلیم کرنے پر مجبور ہیں اور تکلیف بلکہ شرم کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران یہ بیان دیتے ہوئے پھولے نہیں سماتے کہ ہم نے آئی ایم ایف کے تمام مطالبات ساری شرطیں پوری کر دی ہیں، کوئی یہ نہیں سو چتا کہ ان شرائط کو پورا کرنے کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے عوام کی کمر دہری ہوئی جاتی ہے۔
واپس کریں