دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
صدر جوبائیڈن کا خط
No image امریکی صدر جوبائیڈن نے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کو گزشتہ روز باضابطہ خط بھیج کر اپنے دور صدارت کے تین برسوں میں پہلی بار پاکستان کے کسی سربراہ حکومت سے براہ راست رابطہ کیا، ملک کو درپیش مسائل کے حل میں تعاون کی یقین دہانی کرائی اور دونوں ملکوں کے درمیان پائیدار تعلقات کو عالمی سلامتی کے حوالے سے اہم قرار دیا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ وائٹ ہاؤس نے پاک امریکہ روابط میں پچھلے برسوں کے دوران واقع ہوجانے والی سردمہری کے خاتمے کا فیصلہ کرلیا ہے جسے خارجہ تعلقات میں ہمہ جہت بہتری کیلئے پاکستان کی موجودہ قیادت کی کامیابی قرار دینا غلط نہ ہوگا۔صدر جوبائیڈن نے تین سال پہلے اپنے ملک کی سربراہی کا منصب سنبھالا تھا ۔ اس وقت عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم تھے۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران امریکی صدر کی جانب سے نہ انہیں کوئی فون کیا گیا نہ خط لکھا گیا۔ وائٹ ہاؤس سے فون کال نہ آنے پر عمران خان نے ریکارڈ پر موجود حقائق کے مطابق سخت مایوسی کا اظہارکیاتھااور یہ معاملہ پاکستان میں ایک بڑے تنازع کی شکل اختیار کرگیا تھا۔
اس کے ایک سال بعد شہباز شریف کی سربراہی میں کثیرالجماعتی حکومت کا قیام عمل میں آیا جو 16 ماہ تک جاری رہی، پھر عام انتخابات سے پہلے تک نگراں حکومت کا دور رہا لیکن اس پوری مدت میں امریکی صدر نے حکومت پاکستان سے کوئی براہ راست رابطہ نہیں کیا ‘ تاہم اب صدر جوبائیڈن نے شہباز شریف کی سربراہی میں قائم نئی حکومت کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کرکے اور مختلف شعبوں میں تعاون کی یقین دہانی کراکے پاک امریکہ تعلقات میں ازسرنو گرم جوشی کا عندیہ دیا ہے۔ امریکی صدر کے خط میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان شراکت داری دنیا اور ہمارے عوام کی سلامتی یقینی بنانے میں نہایت اہم ہے اور وقت کے اہم ترین عالمی و علاقائی چیلنجوں کا سامنا کرنے میں امریکہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ خط میں باہمی تعاون کے شعبوں کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صحت عامہ کا تحفظ، معاشی ترقی اور سب کیلئے تعلیم مشترکہ وژن ہے جسے مل کر فروغ دیتے رہیں گے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے جس سنگین مسئلے کا پاکستان کو سامنا ہے اس کے حوالے سے صدر بائیڈن نے یقین دہانی کرائی ہے کہ پاک امریکہ گرین الائنس فریم ورک سے ماحولیاتی بہتری کیلئے ہم اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کریں گے۔ پائیدار زرعی ترقی، آبی انتظام اور 2022 کے سیلاب کے تباہ کن اثرات سے بحالی میں پاکستان کی معاونت جاری رکھنے ، پاکستان کے ساتھ مل کرانسانی حقوق کے تحفظ ، ترقی کے فروغ اوردونوں ملکوں کے عوام کے مابین رابطوں کو مزید مستحکم کرنے کے بھرپور عزم کا اظہار بھی خط میں کیا گیا ہے۔ تاہم یہ بات لائق توجہ ہے کہ امریکی صدر نے میاں شہباز شریف کو عمومی سفارتی آداب کے مطابق وزرات عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد نہیں دی۔ اس کا سبب بظاہر امریکی کانگریس میں کیا جانے والا یہ مطالبہ ہے کہ پاکستان کے حالیہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات مکمل ہونے تک ان کے نتیجے میںقائم ہونے والی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے۔
صدر بائیڈن نے اس مطالبے کو تو نہیں مانا اور پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کیلئے پیش رفت شروع کردی لیکن وزیر اعظم کو باضابطہ مبارکباد نہ دے کر یہ بھی واضح کردیا کہ انتخابی دھاندلی کے الزامات کی معتبر تحقیقات کے بعد ہی موجودہ حکومت کا مکمل اعتبار قائم ہوسکے گا جبکہ خود ملک کے اندر بھی اس امر کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ دھاندلی کی شکایات کو انتخابی ٹریبونلوں میں کم سے کم ممکنہ مدت میںشفاف طور پر نمٹا کر شکوک و شبہات کا مکمل خاتمہ کیا جائے تاکہ ہر سطح پر ہمارے سیاسی نظام پر اعتبار مستحکم ہو اور حکومت باہمی معاملات کو پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھا سکے۔
واپس کریں