دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جوہری ہتھیاروں پر اخراجات ، پاکستان آٹھویں نمبر پر
No image جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے متحرک غیر سرکاری تنظیم انٹرنیشنل کمپین ٹو ایبولش نیوکلیئر ویپنز (آئی سی اے این) نے سال 2021 میں عالمی سطح پر نو جوہری طاقتوں کے اخراجات کے تخمینے پر مبنی رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان 1.1 ارب ڈالرز کے خرچے کے ساتھ آٹھویں نمبر پر ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکہ 44.2 ارب ڈالرز کے ساتھ پہلے، چین 11.7 ارب ڈالرز کے ساتھ دوسرے، روس 8.6 ارب ڈالرز کے ساتھ تیسرے، برطانیہ 6.8 ارب ڈالرز کے ساتھ چوتھے اور فرانس 5.9 ارب ڈالرز کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔

اسی طرح بھارت، اسرائیل، پاکستان اور شمالی کوریا 2.3 ارب ڈالرز، 1.2 ارب ڈالرز، 1.1 ارب ڈالرز اور 0.642 ارب ڈالرز کے ساتھ باالترتیب چھٹے، ساتویں، آٹھویں اور نویں نمبر پر ہیں۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان کے پاس 165 ایٹمی ہتھیار ہیں جن میں زمین سے زمین اور فضا سے مار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماہرین کے مطابق پاکستان اپنے کُل دفاعی بجٹ کا 10 فیصد ایٹمی صلاحیت پر خرچ کرتا آیا ہے جس کی تصدیق 2016 کی ایک پارلیمانی رپورٹ میں ہوئی کیوں کہ اس سال ایٹمی صلاحیت پر اخراجات کا یہ تناسب 9.8 فیصد تھا۔آئی سی اے این کے مطابق سال 2021 میں کُل دفاعی بجٹ کا 10 فیصد 1.1 ارب ڈالرز بنتا ہے اس لیے تنظیم نے یہ تخمینہ اخذ کیا ہے۔

تخمینے کے اسی تناسب سے دیکھا جائے تو 2020 میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر اخراجات کا تخمینہ ایک ارب ڈالرز لگایا گیا تھا۔

رپورٹ میں بھارت کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہاں کُل دفاعی بجٹ کا 46 فیصد ایٹمی ہتھیاروں پر خرچ ہوتا ہے۔پاکستان کی قومی سلامتی پر ایک تحقیقی مقالے کے مصنف اور جنوبی ایشیا کے تزویراتی حالات پر تبصرہ کرنے والے قمر چیمہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے خطے میں تزویراتی استحکام حاصل کر لیا ہے اس لیے اب مزید ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں۔

اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی میں لیکچرار کے طور پر کام کرنے والے قمر عباس چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آج سے نہیں بلکہ گذشتہ چھ سات سال سے پاکستان کا یہ موقف ہے کہ ہم نے جنوبی ایشیا میں تزویراتی استحکام حاصل کر لیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان نے دنیا کو صرف یہ بتایا ہے کہ اب اس کی نظر چھوٹے تزویراتی ایٹمی ہتھیاروں پر ہے جو وہ حاصل کر چکا ہے۔‘

انہوں نے آئی سی اے این کی رپورٹ کے حوالے سے خاص کر کہا کہ ’اس طرح کے جو بھی گروپس یا تنظیمیں ہوتی ہیں ان کے پاس فرسٹ ہینڈ انفارمیشن نہیں ہوتیں۔‘

قمر چیمہ نے اپنی بات کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’ایسی تنظیمیں دفاعی بجٹ کی کُل لاگت، ایٹمی ہتھیاروں کی ذمہ دار کمیٹیوں اور باڈیز کی میٹنگز وغیرہ کو مانیٹر کر کے معلومات اخذ کرتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا تخمینہ سائنسی بنیادوں سے بھی عاری ہوتا ہے۔جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے مابین ایٹمی اور غیر ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں قمر چیمہ نے وضاحت کی کہ ’پاکستان کے اس دعوے کی تصدیق کہ خطے میں تزویراتی استحکام حاصل کیا جا چکا ہے کئی باتوں سے ہوتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اور بھارت کے درمیان ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) کی سطح پر اور محکمہ خارجہ کی سطح پر ہاٹ لائنز موجود ہیں۔ اب فوجی معاملات اس طرح سے آگے نہیں بڑھتے جس کی مثال ماضی میں ملتی تھی۔‘

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’حال ہی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان 2003 کے فائر بندی کے معاہدے کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔‘

قمر چیمہ نے ایک اور مثال دی کہ ’حال ہی میں پاکستان میں حکومت کی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ لیکن بھارت نے اس کا بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی اور لائن آف کنٹرول پر قائم امن کی فضا برقرار رہی۔‘

قمر چیمہ کے مطابق ’فوجی کانفڈینس بلڈنگ میژرز (سی بی ایمز) کی اس سے بہتر مثال دونوں ملکوں کی تاریخ میں نہیں ملتی۔‘

منگل کو پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے مختلف نجی ٹی وی چینلز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’دفاعی بجٹ میں 2020 کے بعد سے کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔‘

ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں امریکہ سب سے آگے

آئی سی اے این کی رپورٹ کے مطابق 2021 میں نو عالمی ایٹمی طاقتوں کا جوہری ہتھیاروں پر اخراجات کا تخمینہ 84.2 ارب ڈالرز تھا۔

اس میں سے 44.2 ارب ڈالرز کے اخراجات یعنی 53 فیصد سے زائد تنہا امریکہ نے کیے تھے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ کے پاس 5 ہزار 428 ایٹمی ہتھیار ہیں جنہیں زمین سے زمین، فضا سے زمین اور آبدوزوں سے مار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ رپورٹ میں آئی سی اے این نے سال 2021 تک اٹیمی ہتھیاروں پر اخراجات کا تخمینہ لگایا ہے جس دوران روس نے یوکرین پر حملہ نہیں کیا تھا۔ حملے کے بعد یقینی طور پر روس کے ایٹمی اخراجات بڑھے ہوں گے۔

تاہم 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق روس کے پاس 5 ہزار 977 ایتمی ہتھیار ہیں۔
بشکریہ:انڈیپنڈنٹ اردو
واپس کریں