دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
میر واعظ کشمیر مولانا محمد یوسف شاہؒ سابق صدر آزاد جموں و کشمیر
No image (نجیب الغفور خان، جموں و کشمیر لبریشن سیل) ریاست جموں و کشمیر اورخاص کر سرینگر میں میر واعظ خاندان ایک مدت سے فروغ اسلام کا مرکز رہا ہے۔ اس خاندان نے دین اشاعت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی فکری اور سیاسی راہنمائی بھی کی۔ اس مرکز سے وادی کشمیر میں تحریک آزادی اور الحاق پاکستان کو بنیاد حاصل ہوئی جس نے آگے چل کر ایک عظیم انقلاب کی صورت اختیار کر لی۔ میرواعظ مولانا محمد یوسف شاہؒ بھی اسی خاندان کا چشم و چراغ تھے۔میر واعظ کشمیر محمد یوسف شاہؒ 22شعبان 1313 ہجری بمطابق 1892ء کو پیدا ہوئے۔)بعض حوالہ جات میں سن پیدائش 1894ء اور 1890بھی درج ہے) ان کے والد کا نام میرواعظ رسول شاہ تھا، جو میر واعظ خاندان کے سربراہ تھے۔
میرواعظ مولانا محمد یوسف شاہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم اور سرینگر کے علماء سے حاصل کی۔ بعدازاں یہ دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے۔ دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ وادی کشمیر میں واپس آ گئے اور دینی خدمات سرانجام دینے لگے۔ میر واعظ کشمیر مولانا محمد یوسف کا تحریک آزاد ی کشمیر میں کردار نا قابل فراموش ہے تاہم میر واعظ یہ حسرت لے کر جدا ہوئے کہ ساری ریاست اغیار کے پنجہ غلامی سے آزاد ہوکر پاکستان کا حصہ بن جائے۔
میر واعظ کشمیر ایک عظیم دینی اور سیاسی شخصیت تھے۔ جموں و کشمیر کی تاریخ کے ایک نازک دور میں انہوں نے جس تدبر اور ثابت قدمی سے ریاست کے مسلمانوں کی راہنمائی کی وہ تاریخ میں زندہ رہے گی۔ میر واعظ کشمیر مولانا محمدیوسف شاہ اور ان کے خاندان نے کشمیری عوام کو دین اسلام سے وابستہ رکھنے اور انہیں آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرنے کیلئے گراں قدر خدمات انجام دیں وہ کشمیری عوام کے سچے بہی خواہاں تھے۔جنہوں نے ایک طرف انہیں اسلامی تعلیمات سے نواز نے کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں تو دوسری طرف انہیں اتحاد اور یگانگت کا درس دیا۔ یہ خاندان اپنے روحانی فیض کی وجہ سے وادی کشمیر میں غیر معمولی اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ اس خاندان نے وادی کشمیر میں مسلمانوں کی دینی، روحانی اور فکری راہنمائی کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ افغانوں، سکھوں اور ڈوگروں کے پرآشوب دور میں مسلمانوں کی فلاح و اصلاح کے لئے اس خاندان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ میر واعظ رسول شاہ نے 1897ء میں سرینگر میں ”انجمن نصرت الاسلام“ کی بنیاد رکھی۔ اس انجمن نے وادی کشمیر میں بہت سے دینی مدارس قائم کیے۔ حکومت بھی اس انجمن کو مالی امداد مہیا کرتی تھی۔
ان کی نگاہ دوربین نے دیکھ لیا تھا کہ مسلمانوں میں جس چیز کی کمی ہے وہ اتحاد اور اتفاق ہے جس کے بغیر کوئی بھی قوم اپنے قومی مقاصد حاصل نہیں کر سکتی۔ میر واعظ کشمیر مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ آزاد جموں و کشمیر کی تعمیر و ترقی میں گہری دلچسپی لی۔انہوں نے اسلامی ممالک کے دورے بھی کیے۔ قرآن مجید کا کشمیری زبان میں ترجمہ اور تفسیر ان میر واعظ کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔1932ء میں جب مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں آیا تو آپ نے اس میں بنیادی کردار ادا کیا۔ لیکن تھوڑے عرصہ بعد جب خاندانی عزت و وقار اور شخصی اثر و رسوخ کے مسئلہ پر آپ کے اور شیخ عبداللہ کے مابین اختلافات بڑھ گئے تو آپ مسلم کانفرنس سے علیحدہ ہوگئے۔ 1933ء میں آزاد پارٹی مسلم کانفرنس کے نام سے آپ نے ایک الگ سیاسی جماعت قائم کر لی۔ 1934ء میں جموں کشمیر پرجا سبھا کے پہلے عام انتخابات میں آپ کی جماعت نے وادی کشمیر کے انتخابی حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے لیکن شیخ عبداللہ کی جماعت مسلم کانفرنس نے ان امیدواروں کو شکست دے دی۔
میرواعظ یوسف شاہ سیاست سے مایوس ہو گئے۔ ان کی جماعت بھی عوامی مقبولیت حاصل نہ کر پائی تو وہ سیاست سے کنارہ کش ہو کر پھر دینی سرگرمیوں کی طرف ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ یکم نومبر 1951ء سے 21 جون 1952ء تک آپ چند ماہ کے لئے آزاد کشمیر کی صدارت پر فائز رہے۔ یکم جون 1956ء سے 6 ستمبر 1956ء تک چند ماہ کیلئے آپ دوبارہ آزار کشمیر کے صدر بنے۔ اسی عرصے میں آپ مسلم کانفرنس کے”میرواعظ“ دھڑے کے صدر بھی رہے۔ 1964ء میں آپ نے مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں مصر، الجزائر اور دیگر ممالک کا سفر اختیار کیا۔
میرواعظ مولانا یوسف شاہ کشمیر کے سیاسی و مذہبی حلقوں میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ انہیں کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے قرآن پاک کے بیس پاروں کا کشمیری زبان میں ترجمہ کیا۔ آپ نے سرینگر سے سہ روزہ اخبار”اسلام“ اور ایک رسالہ”راہنما“ بھی جاری کیا۔ آپ نے 1947ء سے پہلے وادی کشمیر کے مسلمانوں کے سیاسی، مذہبی و سماجی حقوق کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ لیکن ان کا اصل امتیاز عالم دین کی حیثیت سے تھا، وہ ریاست بھر میں ایک مسلمہ عالم دین اور سیاسی رہنما تھے، کشمیری مسلمان ان کی ذات اور ان کے خاندان سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں۔
میرواعظ ریاست میں تحریک آزادی اور پھر تحریک پاکستان کے زبر دست داعی تھے، انہوں نے کشمیر یوں کی دینی اور سیاسی رہنمائی آخری وقت تک جاری رکھی، وہ آزاد کشمیر ریڈیو سے کشمیر زبان میں قرآن پاک کی تفیسر نشر کرتے رہے۔" کشمیری زبان میں پورے قرآن شریف کا یہ پہلا ترجمہ اور تفسیر ہے جو تین جلدوں پر مشتمل ہے، میر واعظ جہاں علمی حیثیت سے اپنے ہمعصر علماء میں ممتاز تھے وہیں علمی زندگی،عبادت، اور ریاضت اور صدق مقال کے لحاظ سے ان کی زندگی سلف صالحین کا عمدہ نمونہ تھی۔ اہل کشمیر کی دینی اور سیاسی بیداری میں ان کی مخلصانہ جدوجہد کا بڑا حصہ ہے۔ " میر واعظ کشمیر مولانا محمد یوسف شاہ صاحب کی تفیسر قرآن کریم کشمیری زبان میں بہت مقبول رہی ہے اسی مقبولیت پر رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ نے بھی شائع کر کے مفت تقسیم کیا ہے۔ " 16 رمضان المبارک 1388ء بمطابق 1968ء کو راولپنڈی میں روزے کی حالت میں آپ کا انتقال ہوا۔ انہوں نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ انہیں مظفرآباد میں دفن کیا جائے۔ چنانچہ ان کی وصیت کے مطابق انہیں مظفرآباد میں سپریم کورٹ کے احاطے میں اپر اڈا کے قریب دفن کیا گیا۔
میر واعظ کشمیر مولوی محمد یوسف شاہ جیسے قومی مشاہیر اور راہنماؤں کی روشن کی ہوئی شمع آج جموں وکشمیر کے عوام اور بلخصوص نوجوانوں نے تھام رکھی ہے اور اس شمع کو اپنی جانوں کی قیمت پر روشن اور فروزاں رکھے ہوئے ہیں۔ میر واعظ گھرانے نے کشمیر میں اسلامی اقدار کے فروغ اور ریاست کے اسلامی تشخص کی بقاء وبحالی کے لیے تاریخ ساز کردار اداکیا ہے۔اس گھرانے کی سماجی خدمات بھی کسی طورپر نظر انداز کرنے کے قابل نہیں۔ میر واعظ مولوی محمد یوسف شاہ نے ڈوگرہ عہد میں مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے غاصب قوتوں کو للکارا اور اسلامیان کشمیر کو نظریہ پاکستان کے ساتھ جوڑنے کا تاریخی کارنامہ سرانجام دیا اسی جدوجہد میں انہیں ہجرت بھی کرنا پڑی۔
آج بھی میر واعظ گھرانہ سری نگر میں تحریک آزادی کی قیادت سنبھالے ہوئے ہے۔بھارت پوری قوت کے استعمال کے باوجود حق وصداقت کی آواز کو دبانے میں ناکام ہورہا ہے اور آج بھی جامع مسجد سرینگر سے بلند ہونے والی صدائیں ہندوستان کو للکار رہی ہیں۔ میر واعظ کشمیر مولوی محمد یوسف ایک عالم دین،سیاستدان،مفسرقرآن تھے۔جنہوں نے کشمیری قوم کی سیاسی اور دینی راہنمائی کی۔میر واعظ مرحوم نے صدر آزادکشمیر کی حیثیت سے آزاد خطہ کی ابتدائی تعمیر وتشکیل میں بھی اپنا بھرپور کرداراداکیا۔
واپس کریں