دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاسیات کشمیر کا گل سرسبد ۔ لالہ کشمیری
No image سیاسیات کشمیر اور تحریک حریت کشمیر کے باب میں کے۔ایچ۔خورشید کی ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ان کے صحیفہ حیات کا بطور سیاست دان، قانون دان،دانشور، صحافی،مصنف اور محب وطن رہنما غرض جس پہلو سے بھی مطالعہ کیا جائے،حسن فکروعمل اور پختگی عزم وکردار کی ضیاء پاش کرنوں سے بقعہ نور بنا نظر آتا ہے۔ موصوف تحریک حریت کا وہ منفرد کردار ہیں جو اپنے افکار و نظریات کی فراست اور قول و فعل کی نفاست کے سبب خطہء جنت نظیر ریاست جموں کشمیر کے باسیوں کے احساس وتاثیر میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
ان کے بے داغ کردار،بلند سوچ، حب الوطنی، افکار و نظریات کی پختگی،درویشانہ انداز زیست، معاملہ فہمی اور وسعت قلب و نظر نے انھیں اپنوں کے علاوہ بیگانوں میں بھی معتبر بنا دیا تھا۔کے۔ایچ۔خورشیدکو اگر تحریک آزادی کشمیر کی سیاسی و فکری آبیاری کرنے اور آزاد کشمیر میں جمہوری روایات پروان چڑھانے والوں کا گل سرسبد کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔انھوں نے جب شعوری بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھا تو اس وقت ریاست جموں کشمیر کے حالات خنجر بکف تھے،شہری آزادیاں مفقود تھیں اور پوری ریاست غلامی و استبداد کے جبرناروا کے خلاف مجسمہ احتجاج بنی ہوئی تھی۔کے۔ایچ خورشید نے اپنے سیاسی سفر کا آغازجموں کشمیر مسلم سٹوڈنٹ یونین کے پلیٹ فارم سے کیا۔وہ یونین کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے انھوں نے عوام الناس اورخصوصا نوجوان طبقہ میں سیاسی شعور اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
سیاست کے ساتھ ساتھ انھوں نے صحافت کے زریعے بھی غلامی و استبداد کے خلاف جہدوجد جاری رکھی اور ریاست جموں کشمیر میں اورنیٹ پریس آف انڈیا کے نمائندہ کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔کے۔ ایچ۔خورشید نے اپنی لگن،محنت اور جہد مسلسل سے بہت کم عرصہ میں سیاسی اور صحافتی حلقوں میں کشمیر کے اندر اور باہر نمایاں مقام پیدا کرلیا۔یہی وجہ ہے کہ جب 1944 میں قائد اعظم محمد علی جناح سرینگر تشریف لائے توانھوں نے اپنی خدادا بصیرت سے کے۔ایچ خورشیدکی صلاحیتوں کوبھانپتے ہوئے انھیں اپنا معتمد خاص مقرر کیا۔ کے۔ایچ۔ خورشید نے قائد اعظم کی رفاقت میں برطانیہ،مصر کے دورئے کیے۔ دورہ مصر کے دوران انھیں مصر اور فلسطین کی مسلم تحریکوں کے قائدین کے قریب ہونے اور ان سے تبادلہ خیالات کا موقع بھی ملا۔ ان ملاقاتوں نے کے۔ایچ خورشید کی شخصیت اور انداز فکر کو ایک نیا آہنگ و وقار بخشا۔ کے۔ایچ۔خورشید 1944 سے1947تک مسلسل سوا تین برس تک قائد اعظم کے ہمراہ تحریک پاکستان کی کامیابی کے لیے کام کرتے رہے۔ کے ایچ۔خورشید کی اصول پسندی،سیاسی بصیرت اور نظریاتی پختگی قائداعظم ہی کے فیضان نظر کی کرشمہ سازیوں کا نتیجہ تھی، وہ قول و فعل کے تضاد سے کوسوں دور تھے،ان کے کردار کا قابل ذکر پہلو شان استغناء اور بے نیازی تھی، اوراپنی شخصیت میں موجود غیر معمولی سحر انگیزی اور طلسماتی دلکشی کے سبب وہ جہاں جاتے تھے مثل آفتاب نمایاں نظر آتے ہیں۔موصوف سیاسیات کشمیر میں جرات بیدار کا حسین نمونہ اور شجاعتوں کی سند تھے۔انھوں نے پورے خلوص و جذبہ سے قوم کو درس حریت دیا اور جب تک جیئے اپنے فرائض کی مے کو شجاعتوں کے جام سے پیا۔ انھوں نے اپنی سیاسی و قانونی بصیرت کے زریعے سیاسیات کشمیر میں ایسا کردار ادا کیا جس کے تدبر و فراست کے سامنے ریاست کے غیر ریاستی آلہ کاروں کی سیاست ہمیشہ لرزتی رہی۔ کے۔
ایچ خورشید نے تحریک آزادی کشمیر کے خلاف غیرریاستی سازشوں اور ریاست کے ضمیر فروش سیاست دانوں کی ریشہ دوانیوں کا بھر پور انداز سے پردہ چاک کیا اور ریاستی وحد ت کی بقاء و سلامتی اور قومی آزادی کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائی۔ کے۔ایچ۔خورشید کو آزاد کشمیر کا پہلا منتخب صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔1959 میں پہلی بار اور 1962دوسری بار آزاد کشمیر کے بنے۔ انھوں نے اپنے دور صدارت میں بے پناہ سیاسی مخالفت کے باوجودآزادکشمیرمیں پارلیمانی جمہوریت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔1959میں جب کے۔ایچ۔خورشید نے منصب صدارت سنبھالا اس وقت تک آزاد کشمیر میں حکومت کو آزاد کشمیر حکومت کہا جاتا تھا۔ کے۔ایچ۔ خورشید نے اس حکومت کو پوری ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ،باوقارحکومت بنانے کے لیے اس کا نام بدل کر آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر رکھا اور آزاد حکومت کی شناخت کے لیے باقاعدہ مونوگرام تیار کروا کے رائج کیا۔انھوں نے اپنے دور حکومت میں حکومتی پرنٹنگ پریس، آزاد کشمیر ریڈیو اور اسٹیٹ کونسل کا قیام عمل میں لایا۔ آزاد کشمیر میں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ کا آغاز بھی کے۔ایچ۔خورشید کے دور حکومت میں ہوا۔ انھوں نے آزادکشمیر میں جمہوریت کے فروغ،ریاست جموں کشمیر کی وحدت کو برقرار رکھ کر تحریک ٓزادی کشمیر کی کامیابی کے لیے فیصلہ کن جد وجہد کرنے اور آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کو پوری ریاست کی نمائندہ اور آئینی حکومت تسلیم کروانے کے لیے 1962 میں جموں کشمیر لبریشن لیگ کی بنیاد رکھی۔
جموں کشمیر لبریشن لیگ کی کی پالیسی کا بنیادی و اساسی نقطعہ یہ تھا اور ہے کہ آزاد کشمیر کے خطے کو آئینی طور پر تسلیم کرتے ہوئے آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کو پوری ریاست کی نمائندہ و باختیار آئینی حکومت تسلیم کیا جائے تاکہ وہ پوری دنیا میں کشمیریوں کی نمائندگی کا فریضہ سر انجام دے سکے۔ کے۔ایچ۔خورشید مسئلہ کشمیر کے آئینی و قانونی پہلووں پر بڑی دسترس رکھتے تھے۔انھیں حکومت پاکستان کی غیر حقیقت پسندانہ، معذرت خواہانہ بے مقصد اور غیر منطقی کشمیر پالیسی سے اختلاف تھا۔ وہ حکومت آزاد کشمیر کو مہاراجہ ہری سنگھ کی جانشین اور پوری ریاست کی نمائندہ حکومت تسلیم کرانے کے داعی تھے۔وہ چاہتے تھے کہ کشمیریوں کو اپنا مقدمہ خود عالمی فورمز پر پیش کرنے کا حق دیا جائے۔
انھوں نے ہمیشہ اس بات پہ زور دیا کہ کشمیریوں کو الحاق و خود مختاری کی بحث سے نکل کر،کشمیریوں کے عالمی سطح پہ مسلم حق حق خود ارادیت کے حصول کے لیے اجتماعی طور پر کوشش کرنی چاہیے اورحق خودارادیت کے درست اور سود مند استعمال کے لیے کشمیری عوام کے اس حق پر کسی قسم کی قدغن عائد نہیں ہونی چاہیے تاکہ وہ آزادی سے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکیں وہ ہمیشہ اس بات کے قائل رہے کہ کشمیر کو ہندوستان اور پاکستان کے تنازع کے بجائے اسے عالمی سطح پر کشمیری قوم کی آزادی کے مسئلہ کے طور پر پروجیکٹ کیا جائے اس لیے کہ عالمی دنیاکو ایک محکوم اور سامراج کی شکار قوم سے ہمدردی ضرور ہو سکتی ہے لیکن اسے دو آزاد ملکوں کے سرحدی تنازع سے کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے ان کا سیاسی عقیدہ یہ تھا کہ اگر بحیثیت کشمیری ہم حصول آزادی کے لیے حق خودارادیت کے مطالبہ سے دست بردار ہو گئے تو یہ کشمیری قوم کی سیاسی موت ثابت ہو گا۔ کے۔ایچ۔خورشید کی اس صاف گوئی اور بے باکی نے انھیں جفا کیش مقتدر حلقوں اور ان کے حاشیہ نشین سیاست دانوں کی آنکھ کا کانٹا بنا دیاتھا جس کا خمیازہ انھیں اقتدار سے علیحدگی اور قید و بند کی صعوبتوں کی صورت میں بھگتنا پڑا مگر پھر بھی ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔
کے۔ ایچ۔خورشید کو ہم سے جدا ہوئے 36برس بیت چکے لیکن محب وطن اور حقیقت پسند حلقوں میں ان کا نام آج بھی پورے ادب و احترام کے ساتھ لیا جاتاہے۔ ان کی ساری زندگی آزادی کے عظیم آدرشوں اور خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کاوشوں سے عبارت رہی۔بلا شبہ جمہوریت اور کشمیر کاز کے لیے ان کی خدمات قابل ستائش ہیں۔اور ان کے افکار ونظریات ریاستی اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔انکے افکار و نظریات آج بھی تحریک آزادی کشمیر کو ایک نئی جلا بخش رہے ہیں۔
واپس کریں