دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جھڑپیں اور سمجھوتے۔
No image ہندوستان اور پاکستان کے درمیان طویل عرصے سے کشیدہ تعلقات نے کئی دہائیوں سے علاقائی کشیدگی کو ہوا دی ہے، جس سے عالمی توجہ مبذول ہوئی ہے۔ قومیں جنگوں میں مصروف ہیں، جس کے نتیجے میں کافی سیاسی، معاشی اور سماجی اخراجات اٹھائے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں اہم انسانی مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ان دونوں ممالک کی تاریخ امن کے حصول کی ناکام کوششوں سے عبارت ہے۔ 60 کی دہائی کے اوائل میں بھٹو سوارم مذاکرات، 90 کی دہائی میں سیکرٹری سطح کی بات چیت، آٹھ آئٹم ایجنڈا، اور فروری 1999 کی لاہور سمٹ سبھی نے اہم کوششوں کی نمائندگی کی، لیکن ان میں سے کوئی بھی خاطر خواہ پیش رفت نہیں کر سکا۔
دونوں فریقوں نے جہاں تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوششیں کی ہیں وہیں ناکامیاں بھی ہوئی ہیں۔ جیسے جیسے کشیدگی روز بروز معمول بن گئی، 2008 میں ہندوستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے نے دونوں ممالک کو ان کے روایتی تصادم کے موقف کی طرف لوٹا دیا۔
کشیدگی کو معمول پر لانے کے مقصد سے ہونے والے امن مذاکرات کے درمیان، بھارت میں 2019 کے پلوامہ حملے کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوا اور دونوں ممالک کے درمیان طے شدہ بات چیت کو منسوخ کر دیا گیا۔ 5 اگست 2019 کو، بھارتی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے جموں و کشمیر سے خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا، جس میں خود مختاری بھی شامل ہے۔ اس متنازعہ فیصلے نے تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا، جس سے پاکستان میں لوگوں نے 5 اگست کو ’’یوم سیاہ‘‘ کے طور پر منایا۔
بھارت کی جانب سے تعلقات کو پیچیدہ بنانے کے اقدامات کے باوجود حکومت پاکستان نے تعلقات کو معمول پر لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پنجاب کے نارووال ضلع میں کرتار پور کوریڈور کا افتتاح، ہندوستانی سکھ برادری کو ویزہ فری رسائی فراہم کرنا، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو نرم کرنے کے لیے ایک مثبت اقدام ہے۔
چند سال قبل بھارتی جنگی طیاروں نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک کے اندر ایک ہدف پر فضائی حملے کیے تھے۔ جوابی کارروائی میں پاک فضائیہ نے دو لڑاکا طیاروں کو مار گرایا اور ایک پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد، اسلام آباد کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں گرفتار بھارتی پائلٹ کو جذبہ خیر سگالی کے طور پر رہا کیا گیا، جس سے کشیدگی میں کمی آئی۔
اسی طرح بھارتی حکومت کو بھی کشیدگی کو کم کرنے اور پاکستان کے ساتھ اعتماد سازی کے لیے ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے علاقائی امن و استحکام کو ترجیح دینی چاہیے۔
واپس کریں