دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا بھارت میں اسلاموفوبیا انتہا تک پہنچ چکا ہے؟
No image بھارت میں برسرِ اقتدار ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو ترجمانوں کی جانب سے پیغمبر اسلام سے متعلق ’توہین آمیز بیانات‘ دینے پر بھارت سمیت دنیا بھر کے مسلمان برہمی کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر ’بائیکاٹ انڈیا‘ کی مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔ یہ سب چند روز قبل ایک ٹی وی مباحثے کے دوران بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما اور پھر دہلی میڈیا ونگ کے سربراہ نوین کمار جندال کے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ پر پیغمبر اسلام سے متعلق ’توہین آمیز الفاظ‘ استعمال کرنے کے بعد شروع ہوا۔ بیانات پر اتوار کو دنیا بھر کے مسلم ممالک سے مذمتی پیغام جاری ہوتے رہے اور بی جے پی نے دونوں پارٹی اراکین کی معطلی کا اعلان بھی کیا۔
نوپور شرما بھارتی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قومی ترجمان ہیں جنہیں اب متنازعہ ریمارکس کے بعد عہدے سے برطرف کردیا گیا ہے۔ نوپور شرما نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز اپنی یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران کیا تھا۔نوپور شرما دہلی یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے بیرونِ ملک چلی گئیں اور بھارت کی یوتھ ایمبیسیڈر بھی تھیں۔ بعدازاں ملک واپس آنے کے بعد انہوں نے بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کے لیے کام کیا۔ بی جے پی رہنما نے 2008 میں اے بی وی پی سے دہلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر کا انتخاب جیتا تھا۔ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے یوتھ ونگ میں نیشنل ایگزیکٹو کی رکن کے طور پر بھی کام کر چکی ہیں۔ وہ بی جے پی میں مختلف اہم عہدوں پر بھی فائز رہی ہیں۔
یاد رہے کہ بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما نے گذشتہ ماہ انڈیا کے مقامی نیوز چینل ٹائمز ناؤ کے ایک پروگرام میں شرکت کے دوران گیانواپی مسجد کے تنازعے پر بات کرتے ہوئے کچھ ایسا کہا جہاں سے یہ سارا معاملہ شروع ہوا تھا۔ ان پر پیغمبر اسلام کے بارے میں قابل اعتراض تبصرہ کرنے کا الزام تھا اور اس کے بعد سے ان کے خلاف مسلسل کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ انڈیا کے ایک صحافی محمد زبیر جو حقائق کی جانچ کرنے والی ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی ہے نے نوپور شرما کے بیان کی ویڈیو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کرتے ہوئے ان پر پیغمبر اسلام کے بارے میں متنازعہ بیان کا الزام عائد کیا تھا۔ اس کے بعد معاملہ زور پکڑنے لگا اور پاکستان اور انڈیا کے سوشل میڈیا پر اس بیان کی شدید مذمت اور مخالفت کی گئی۔
گوکہ اسلامی ممالک خصوصاً عرب ممالک کی جانب سے آنے والے ردعمل کے باعث بی جے پی نے نوپور شرما کی پارٹی کی بنیادی رکنیت معطل کر دی جبکہ نوین جندال کو پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔ لیکن یہ ایک کھلا دھوکہ ہے کیونکہ اسلام دشمنی اورشعائر اسلام کی توہین کرنا بی جے پی کے ناپاک ایجنڈا ہے ۔نوپور شرما بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان ہیںاس نے2015ء کے اسمبلی انتخابات میں نئی دہلی کی سیٹ سے دہلی کے موجودہ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے خلاف الیکشن لڑاتاہم وہ الیکشن نہیں جیت سکیں اسکے باوجودصرف اسلام اورمسلم دشمنی کے باعث بی جے پی کی ریاستی ایگزیکٹو کمیٹی کی رکن اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے یوتھ ونگ ’’بھارتیہ جنتا یووا مورچہ ‘‘کی چیئرپرسن ہے۔
آپ کویاد ہوگاکہ15 مارچ 2022ء منگل کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنے اجلاس میں ہر سال 15مارچ کو’’انٹرنیشنل ڈے ٹو کامبیٹ اسلامو فوبیا ‘‘قراردے دیا۔اقوام متحدہ نے بالآخر آج دنیا کو درپیش اسلامو فوبیا، مذہبی رسومات کی تعظیم، منظم نفرت انگیزی کے انسداد اور مسلمانوں کے خلاف تفریق جیسے بڑے چیلنجز کا اعتراف کیا۔ اب چونکہ اس تاریخی قرارداد کا نفاذ یقینی بنانا اب اقوام متحدہ کا امتحان ہے ۔یاد رہے کہ اسلام دشمنی کا ایجنڈا رکھنے والا بھارت اس خطے کا واحد ملک ہے کہ جس نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ 15مارچ یوم اسلامو فوبیا قرار پانے پر بھارت پریشان آخر کیوں ہے۔ دراصل بھارت اس قرارداد کی زد میں آرہاہے۔ اس وقت دنیائے مغرب کے علاوہ مشرق میں بھارت واحد ملک ہے کہ جہاں اسلاموفوبیا پایا جا رہا ہے ۔
بھارتی میڈیا بڑے پیمانے پرجانبدارانہ رپورٹنگ اور ایسے زہرناک تبصرے اور ایسے زہر گداز تجزیئے پیش کرتاہے کہ پورے بھارت میںاسلام اورمسلم دشمنی کا طوفان بدتمیز امڈ آتا ہے۔ بھارت کے لگ بھگ تمام ٹی وی چینلوں پرجان بوجھ کر کسی ناپاک شخص کو پروگراموں میں شرکت کیلئے مدعو کیا جاتا ہے۔ بھارت میں اسلامو فوبیا پھیلانے میں بھارتی میڈیا اپنا کردار بھر پور طریقے سے ادا کرتا ہے۔ مسلمانوں کی شناخت سے لے کر ان کے وجود کے خاتمہ کی سعی کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ سے لے کر انکی ذاتی زندگی تک داؤ پر ہے۔ باریش مردوں اور باپردہ عورتوں کو ملازمت سے بے دخل کر دیا جا رہا ہے۔ حجاب پرپابندی لگائی جارہی ہے ، گائے کے ذبیحہ کے الزام پرمسلمانوں کوذبح کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو سوسائٹی اور اپارٹمنٹ میں گھر دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔مسلمانوں کو ٹوپی اور داڑھی اورانکے ساتھ باپردہ خواتین کی وجہ سے ہوٹلوں سے نکال دیا جاتا ہے۔
موجودہ حکمران جماعت بی جے پی کی زیر سرپرستی میں پنپ رہی درجنوںہندودہشت گرد تنظیموں کی طرف سے مسلمانان بھارت کے تئیں بے شمار شبہات اور من گھڑت باتیں پھیلائی جارہی ہیں۔ ان باتوں سے مسلمانوںکے تئیں ہندوؤں میں نفرت و عداوت کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ جس کا سیدھا فائدہ مشتعل ہندو لیڈروں کو ہوتا ہے۔ بھارت کی موجودہ حکمران جماعت اوراس کے زیر تربیت تمام ہندوجتھوں،گروہوں اورتنظیموںکی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ مسلمانان بھارت کی بڑھتی آبادی سے ہندوستان میں عنقریب اکثریت میں ہوں گے اورہندواقلیت میں ۔ بے سروپا اور جھوٹا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ بھارتی مسلمان اس منصوبے کی تکمیل کے لئے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کر رہے ہیں اوراس طرح وہ بھارت میں اپنی آبادی بڑھارہے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ 2050 کے بعد بھارت کا کوئی پردھان منتری ’’وزیراعظم‘‘ کوئی ہندو نہیں بلکہ مسلمان ہو گا۔ مسلم آبادی کا خوف دلا کر لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھائی گئی کہ اگر مسلمانوں کی حکومت آگئی یا وہ اس ملک کے وزیراعظم بن گئے تو ہندوؤں کے حقوق سلب کر لیے جائیں گے، انہیں ’’دوبارہ غلامی کے دور‘‘ میں جینا ہوگا اور ظلم و جور کی ایک نئی تاریخ ہندوؤں کے خون سے لکھی جائے گی۔
بشکریہ: شفقنا اردو
واپس کریں