دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کالے انگریزوں کے غلام ابنِ غلام
No image تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن۔انیسویں اور بیسویں صدی میں بنائے انگریزوں کے نہری نظام کے بعد پنجاب کی بے آباد زمینیں آباد ہوئیں انگریزوں نے یہ زمینیں گھوڑی پال اور اپنے وفاداروں کو دیں۔ اس حوالے سے9 کولونیل کالونیاں بنائیں گئیں. ان میں سے بہت سی زمینیں انگریزوں کے ٹٹوؤں کو ملیں جو انکو فصلیں اور ٹیکس دیتے اور اپنی برادری کے دیہاتوں سے نوجوان بھرتی کر کے جنگِ عظیم اول اور دوم میں ان کو تاجِ برطانیہ اور ملکہ عالیہ کے "جاہ و جلال" کو قائم رکھنے کے لیے برما، جاپان اور یورپ کے محاذوں پر مرنے کے لیے بھیج دیتے۔ آپ لندن میں ہائیڈ پارک کے میموریل گیٹس پر جائیے وہاں آپکو ہندوستان کے ان بدنصیب لوگوں کے نام ملیں گے جو فوج میں بھرتی ہوکر کسی اور کی جنگ میں دیارِ غیر میں مر گئے۔
انگریز سامراج نے پنجاب میں اپنے گرفت کو مضبوط رکھنے کے لیے فوج مضبوط رکھی ہوئی تھی۔ اس حوالے سے انہوں نے ان بیشتر نہری کالونیوں میں سے بہت سا رقبہ فوجی مقاصد کے لیے بھی رکھا تھا۔
اور یہی وجہ ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے یہاں پر جاگیرانہ اور آمرانہ نظام قائم ہے۔ یہ سب کونیل دور کے ثمرات ہیں۔ چونکہ پاکستان بنانے والوں میں پیش پیش نواب، جاگیردار اور وڈیرے تھے لہذا پاکستان میں خاطر خواہ لینڈ ریفارمز نہ ہو سکے۔ جبکہ دوسری طرف بھارت میں نہرو نے لینڈ ریفارمز کر کے جمہوریت کو راستہ دیا اور جاگیردارنہ نظام کا خاتمہ کیا۔
یہی وجہ یے کہ بھارت میں آج جمہوریت پنپ رہی ہے اور پاکستان میں آمرانہ اور جاگیردارنہ کھیل چل رہا یے۔ یہاں ہاکی کی طرح اقتدار کی بال کبھی سلیم اللہ سے کلیم اللہ اور کلیم اللہ سے پھر سلیم اللہ کے پاس جا رہی ہے۔
اس ملک کا چونکہ مکمل نظام جاگیرداری اور آمریت پر قائم ہے لہذا یہاں عام آدمی کو کاروبار میں سہولیات نہیں۔صنعتیں بھی محض جاگیرادوں کی اور انکے خاندانوں کی ہیں۔ یہاں کا سرمایہ دار بھی جاگیری سوچ رکھتا ہے۔ اس ملک میں سٹارٹ اپ کلچر نہیں ہے۔ یہاں کی اشرافیہ کی سوچ ابھی تک انگریز سامراجی دور میں پھر رہی ہے۔ یہاں کے قوانین اب تک انگریز دور کے سامراجی قوانین کی باقیات ہیں اور یہاں کی عدالتوں میں اب تک نقلی وگیں پہن کر جج حضرات کالے انگریز بنے فیصلے سناتے ہیں۔
اس ملک کی ترقی جدید علوم اور جاگیردارانہ نظام کے خاتمے میں ہے۔
یہاں معاشی، معاشرتی ریفارمز اور جدید دنیا سے ہم آہنگ پالیسیوں کی ضرورت ہے۔
یہ تمام لوگ چوہے بلی کا کھیل عوام کے ساتھ کھیل کر اپنے مفادات بچاتے ہیں۔ کبھی خلافت کے شوشے چھوڑ کر ، کبھی صدارتی نظام کے اور کبھی آمریت کے۔ جبکہ یہ ملک مختلف صوبوں اور قومیتوں ہر مبنی یے جسے نہ ہی مذہب جوڑ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اور نظریہ ۔ اسے صرف اور صرف آئین و قانون کی بالادستی اور عدل و انصاف آپس میں اکٹھا رکھ سکتا ہے۔ اس ملک میں حقیقی جمہوریت ایک ارتقائی عمل سے گزر کر ہی آ سکتی ہے جہاں اندرونی و بیرونی مداخلت نہ ہو۔
تاہم یہ سب ممکن نہیں کیونکہ اوپر بیٹھے کالے انگریز اب تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ 47 سے پہلے کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ جبکہ عوام اس قدر جاہل رکھی گئی ہے کہ وہ زومبی بن کر ان غلیظ اور دو ٹکے کے لوگوں کو مہان سمجھتی ہے اور جو انہیں کچھ بھی کہہ دے یہ عقیدت اور جذبات میں بہتے ہوئے یقین کر لیتی ہے۔ یہاں عقل و شعور کا فقدان یے۔ منہ بھر کر بکواس کرنے والا ہیرو اور مسیحا ہے۔ اور جی حضوری کرنے والی اس غلام قوم کو صدیوں سے ملی غلامی میں رہنا پسند ہے۔
عوام کی جہالت اور تاریخ سے ناواقفیت انہیں شناخت کے بحران تک لے جا چکی ہے جہاں ہر دوسرا شخص انہیں ابو لگتا ہے۔دانشوری کا معیار حب الوطنی کی جگالی اور نظریات کو چومنا چاٹنا ہے۔ ایسے میں نوجوانوں کو یہی مشورہ ہے کہ نئی سوچ پیدا کریں، تاریخ سے آگاہی حاصل کریں تاکہ 76 برس سے اشرافیہ کے اس گھناؤنے کھیل کو جان کر اس کھیل سے نکل سکیں۔
شکریہ۔
واپس کریں