دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایکس سروس مین اور جنرل علی قلی خان
No image تحریرـ سبطِ حسن گیلانی۔۔۔۔ ریٹائرڈ آرمی آفیسرز کی تنظیم ہے وہ جی ایچ کیو سے اپرووڈ ہے اور وہ یہ نہیں ہے ۔ یہ ایک الگ سے چھوٹا سا گروپ ہے جس کی قیادت جنرل علی قلی خاندان کر رہا ہے. جنرل صاحب کا اپنا اور جنرل ایوب خان کا سارا خاندان اس وقت پی ٹی آئی کا حصہ ہے اور یہ خاندان اتنے ہی جمہوریت پسند ہیں جتنی اسٹیبلشمنٹ جمہوریت پسند ہے ۔ جنرل علی قلی خان کے والد جنرل حبیب الرحمن تھے جن کی بیٹی سے جنرل ایوب خان نے اپنے بیٹے کیپٹن گوہر ایوب خان کی شادی کی تھی ۔ گوہر ایوب خان کپتانی سے ریٹائرڈ ہو کر اپنے سسر کے ساتھ راتوں رات گندھارا انڈسٹری کے مالک بن گئے تھے ۔ جنرل اختر عبدالرحمن کے ریٹائرڈ ہونے سے پہلے اربوں روپے کی پیپسی کولا فیکٹری لگ جانا اس وقت بھی کوئی نئی بات نہیں تھی اور نہ آج کل جنرل عاصم باجوہ کی امریکہ میں مہنگی پیزہ چین خرید لینا ۔ یہ شروع دن سے ہوتا آیا ہے اور اج بھی پوری آب و تاب سے ہو رہا ہے ۔ جنرل حبیب الرحمن بھی پچاس سال کم کی عمر میں جنرل بن گئے تھے اور آرمی چیف بننے کا خواب دیکھ رہے تھے جو پورا نہ ہوا ۔ ان کے بیٹے جنرل علی قلی خان مشرف سے سینیر تھے ۔

جب وزیر اعظم نواز شریف نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیر کرامت کی پارلیمنٹ سے بالا کونسل بنانے کی کوشش پر جس میں آرمی چیف بھی شامل ہو استعفے مانگ لیا تھا تو جنرل جہانگیر کرامت نے شرافت کا مظاہرہ اور آئین و قانون کی پاسداری کرتے ہوئے استعفے دے دیا جس پر جنرل علی قلی خان نے انہیں استعفے واپس لینے اور مارشل لا نافذ کرنے پر زور دیا تھا جس پر جنرل جہانگیر کرامت نے انکار کر دیا تھا ۔ وہاں سے ناکام لوٹ کر وہ سینیر موسٹ ہونے کی بنا پر چیف آف آرمی سٹاف بننے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا تھا مگر وزیر اعظم نواز شریف نے ان سے جونیر جنرل مشرف کو چیف آف اسٹاف مقرر کر دیا اب دوسری بات چیف آف آرمی اسٹاف بننے کا اس خاندان کا خواب ٹوٹا تھا پہلی مرتبہ بھٹو صاحب کی وجہ سے دوسری بار میاں نواز شریف کی وجہ سے جس کا غصہ و عناد ان دونوں سیاست دانوں کی سیاسی جماعتوں کے متعلق اس خاندان کے دلوں کے کڑاہ میں کھئول رہا ہے ۔ مشرف صاحب میسنے تھے اپنے عزائم دل میں رکھنے پر قدرت رکھتے تھے ۔

جنرل جہانگیر کرامت کے استعفے پر ہی اس وقت کی آرمی قیادت نے آئندہ برداشت نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور میاں نواز شریف صاحب نے کمزور حکمت عملی کی بدولت وہ موقع جنرل مشرف کو دے دیا اس سے آگے تاریخ ہے ۔ اس بات کی وضاحت جنرل مشرف نے بھی اپنی ردی کی نظر ہو جانے والی کتاب میں کر رکھی ہے۔ ایک وزیر اعظم کے آئینی حق کے استعمال پر اسٹیبلشمنٹ کے دل میں اٹھنے والے ابال نے اس بدقسمت ملک پر ایک اور مارشل لا کی صورت ضرب لگانی تھی اگر مشرف کی جگہ جنرل علی قلی خان بھی چیف بن جاتے تب بھی ۔ چوتھا مارشل لا اس ملک کی تقدیر میں لکھا جا چکا تھا۔ حالانکہ جنرل مشرف کو وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اسی وقت ریٹائرڈ کر دینا چاہیے تھا جب اس نے کارگل کی مہم جوئی کی صورت میں پاکستان کو پوری دنیا میں رسوائی و جگ ہنسائی کی مثال بنا دیا تھا ۔ مشرف کو وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ریٹائرڈ کرنے کا جو نوٹیفکیشن جاری کیا تھا وہ آئین و قانون کی نظر میں پوری طرح درست اور منتخب وزیراعظم کا آئینی حق تھا ۔

مشرف جتنی دیر اس ملک کی حکومت پر ناجائز قابض رہا آئینی طور پر وہ ایک ریٹائرڈ جنرل تھا جس کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے ۔ پوری قوم کو ان ریٹائرڈ جرنیلوں سے یہ سوال پوچھنا چاہے کہ تم کس قانون کے تحت چیف آف آرمی سٹاف سے وقت سے پہلے الیکشن کی مانگ کر رہے ہو ؟ کیا چیف آف آرمی اسٹاف حکومت ہوتا ہے یا الیکشن کمیشن کا سربراہ بھی ؟ آئی ایس پی آر کی اس موضوع پر ٹویٹ کی ساری قوم منتظر ہے ۔
واپس کریں