دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مکہ کے لوگ باقی خداؤں کے ساتھ اللہ کو بھی خدا مانتے تھے۔کوروش خیال
No image قبل از اسلام کے زمانے میں عرب ہی نہیں بلکہ تقریباً سبھی سامی النسل اقوام یعنی عبرانی (یہودی) کنعانی،شامی اقوام، ارامی،اکادی اور عرب کانسی کے زمانے سے ایل El دیوتا کی پوجا کرتے چلے آرہے تھے۔ ایل قدیم سامی دیوتا تھا میسوپوٹیمیا میں این لِل بھی غالباً اسی ایل کا ورژن تھا، ایل دیوتا کنعانیوں کا سب سے مقدس دیوتا تھا یہ آسمان ، بارش، گرج و بجلی، اور چوپایوں کے غلوں کا دیوتا تھا۔
ایل کی بیوی کا نام آشورہ تھا، اور ان کے کئی بچے تھے مثلاً بعل، موت، ملک، اَشتر وغیرہ سب کے الگ مندر اور ان میں نسب بت یا پتھر موجود ہوتے تھے۔ سامی لوگ ان دیوتاؤں کی نذر قربانیاں کرتے اور چڑھاوے چڑھاتے تھے۔ زیادہ تر جانوروں کی قربانیاں کی جاتیں کچھ اقوام جیسے کہ آموری بچوں کی قربانیاں بھی کرتے تھے۔ ابتدا کے سامی مذاہب توحید پرست نہیں بلکہ اپنے باقی ہمسائیوں کی طرح پولی تھی اسٹ تھے یعنی ایک سے زیادہ دیوی دیوتاؤں کی پرستش کرنے والے تھے۔ لیکن سامی قوموں کے کچھ دیوتا اور نظریات میسو پوٹیمیا اور مصر دونوں کے عقائد سے کچھ الگ تھے گو سب ایک دوسرے کو متاثر کرتے رہے۔
جب یہودیوں کا ایرانیوں کے ساتھ تعلقات قائم ہوئے تو انھیں ایرانی زرتشتیوں کا خالص توحید کا تصور بہت پسند آیا حالانکہ اس سے پہلے یہودیوں میں بھی صرف اکلوتے ایل کی پرستش کی تاکید کی جاتی تھی مگر اسکے بت بنائے جاتے تھے۔ کوروش اعظم کے عہد سے یہودیوں نے زرتشتیوں سے بغیر مورتی کے پوجا کرنا سیکھا۔ تب انھوں نے ایل کی بجائے یہواہ خدا کے لیے نام استعمال کرنا شروع کردیا۔ جبکہ عبرانی میں ایل کی دیگر شکلیں جیسے الھم، الہی، الا ھون وغیرہ آج تک مستعمل ہیں۔
جبکہ دوسری طرف عرب لوگ آخر تک ایل کو ہی سب سے مقدس دیوتا مانتے رہے گو وہ ایل کے ساتھ دیگر دیوتاؤں کی پوجا بھی کرتے تھے جیسے کہ لات، عزی، منات، ملک وغیرہ۔ چوتھی، پانچویں صدی عیسوی میں پرانی عربی زبان ارتقاء پذیر ہو کر جدید (قرآنی) عربی کی شکل میں وجود میں آئی جس میں ایل کا لفظ اب ایلٰہ بن گیا۔ اسی وقت عربی میں معرفہ صیغے کے ساتھ ال کا اضافہ ہونا شروع ہوا تو ال کا استعمال ہو کر الہ لفظ ال+ الہ یعنی اللہ بن گیا۔ اسلام سے پہلے کے عرب بشمول مکہ کے لوگ باقی خداؤں کے ساتھ اللہ کو بھی خدا مانتے تھے۔۔۔۔۔
واپس کریں