دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آج کل شادیوں کا سیزن ہے۔کچھ رسوم و رواج کم کرکے روپے بچا لیں۔
No image ۔ ہم مڈل کلاسیوں کی شادیوں میں شادی لڑکے کی ہو یا لڑکی کی جتنی بھی سادگی برتی جائے۔ نہ نہ کرتے اخراجات قرض لینے کی سطح تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ گھر کی خواتین لڑکے اور لڑکی دونوں سائیڈ سے زیور اور بھاری بھرکم اور انتہائی مہنگے ریشمی کپڑوں کے بغیر شادی کو حرام سمجھتی ہیں۔ شادی کے بعد اکثریت میں جوڑے مالی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور وہ مشکلات پلس خاوند کی مالی حیثیت تب اور واضح ہو جاتی جب پہلے دوسرے ماہ ہی پیریڈز مس ہوجاتے اور ماشاءاللہ سے خوشخبری آجاتی ہے۔
بھائی یورین ٹیسٹ پازیٹو آنے کے فوری بعد کسی تجربہ کار ریڈیالوجسٹ سے اسکین کروا کر پریگنینسی کی لوکیشن معلوم کرنا ہوتی ہے۔ اکٹوپک حمل (بچہ دانی کے باہر) جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔ اور پھر اس اسکین کے ساتھ کسی قابل اعتماد گائناکالوجسٹ سے ملنا ہوتا ہے۔ بنیادی بیس لائن ٹیسٹنگ اور اگر کسی دوا کی ضرورت ہو تو وہ شروع کر دی جاتی ہے۔ عموماً فولک ایسڈ اور آئرن کی کمی کی گولی لکھی جاتی ساتھ کیلشیم یا ملٹی وٹامن وغیرہ۔ 20 روپے کی سٹک سے یورین ٹیسٹ کرکے خوش ہو کر گھر نہیں بیٹھنا ہوتا۔
اگر خوشخبری ملنے پر آپکے پاس کوئی پیسے نہیں ہیں۔ اور یہ کام اتنی جلدی ہو گیا ہے کہ ابھی شادی کا بھی قرض باقی ہے تو اگر پاس کچھ سونا موجود ہے وہ بغیر کسی کو بتائے دونوں میاں بیوی مشورہ کرکے بیچ دیں۔ اور خاوند اپنی حاملہ بیوی کی خود کئیر کرے۔ ہر چیز خود میسر کرے۔ نہ کہ اسے اپنی امی یا بہنوں یا گھر کی بزرگ خواتین کے حوالے کر دے۔ ہر ماہ یا ایک ماہ چھوڑ کر دوسرے ماہ ریگولر چیک اپ کرائیں اور ڈیلیوری بے شک نارمل ہی کیوں نہ بتائی گئی ہو۔ کسی بھی قیمت پر دائی یا کسی ایسے ہسپتال میں مت کرائیں جہاں بچے کو فی الفور آکسیجن لگانے کی سہولت میسر نہ ہو۔
اگر آپ کسی باہر کے ملک رہتے ہیں اور شادی کرانے چھٹی پر آئے ہیں۔ حاملہ بیوی کو یہاں چھوڑ کر واپس چلے جائیں گے تو اسے اپنی امی اور بہنوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔ ہر ماہ اسے 20 ہزار روپے گھر والوں سے الگ بھیجیں۔ کئی لڑکے والے اتنے بغیرت ہوتے ہیں بیٹا باہر چلا گیا حاملہ بہو کو اسکے میکے چھوڑ آتے ہیں کہ وہی نو ماہ خرچ کریں۔ باہر بیٹھے للو کو جو ماں بتا رہی ہوتی اس کے لیے وہی ٹھیک ہوتا۔ اگر بیوی میکے بھی ہے تو پلیز اسے خرچ خود بھیجیں۔
کوشش کریں کسی ایسی جگہ ڈیلیوری ہو جہاں بچوں کی نرسری موجود ہو۔ کم از کم وہاں سے قریب ہی کسی ہسپتال میں نرسری ہو۔ گاؤں سے شہر یا شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں آکسیجن لگوانے یا نرسری میں بچہ لیجانے تک وہ زندہ بچ بھی جائے اسکا برین کسی حد تک متاثر یا ڈیمج ہو چکا ہوتا۔ اس چیز کا فوری پتا نہیں چلتا۔ چند ماہ یا ایک دو سال تک جب بچہ اپنی عمر کے مطابق حرکات و سکنات نہیں کرتا تو ڈاکٹر پوچھتے کہ پیدائش کہاں ہوئی تھی۔ بچہ رویا تھا اسکا رنگ کیا تھا اسے آکسیجن لگی تھی ؟ تو خیال آتا گڑ بڑ کہاں ہوئی تھی۔
برین ڈیمج کے نتیجے میں ہونے والی معذوری کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ اسے سیری برل پالسی کہتے ہیں۔ جسم مفلوج ہوجاتا اور ساری عمر بچے کو بیٹھنے کھڑا ہونے بات کرنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ بروقت کیا گیا فیصلہ جو حاملہ ماں کی اچھی کئیر اور اچھی جگہ ڈیلیوری عمر بھر کے پچھتاوے سے بہتر ہے۔
اگر زیور نہیں ہے تو کم از کم قرض اتر جانے یا قرض اترنے کی کوئی سبیل ہی بن جانے تک انتظار کر لیا جائے۔ فیملی بڑھانے یعنی بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ باہمی رضا مندی سے مؤخر کر لیا جائے۔ اس میں نہ کوئی شرعی مسئلہ ہے نہ طبعی۔
ایک فرنچ جوڑے سے ملاقات کے دوران گپ شپ ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک سال کے ہنی مون پر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں کا فیصلہ ہے ہم ایک سال تک کوالٹی ٹائم ساتھ گزاریں گے چھ ماہ چند ملکوں میں اور چھ ماہ پیرس میں جاکر گزاریں گے۔ پاکستان میں وہ ایک ماہ رکنے والے تھے۔ اور پھر فیملی بڑھائیں گے۔ یہاں یہ کنسپٹ تو جیسے گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اس بات کو نیو بیاہتا جوڑوں تک پہنچانے کی ضرور کوشش کریں۔ کہ یا تو شادی میں ہی کچھ رسوم و رواج کم کرکے ایک دو لاکھ روپے بچا لیں۔ یا تھوڑا وقت ایک دوسرے کو سمجھنے میں لگائیں۔
کوالٹی ٹائم گزاریں۔ گھومیں پھریں اور اپنے مالی حالات بہتر کریں۔ اب وہ پرانا دور نہیں ہے کہ ہماری مائیں سوکھی روٹی اور گھر کا مکھن دیسی گھی دودھ وغیرہ پی کر گھر میں ہی دائی سے بچے پیدا کر لیا کرتی تھیں۔ اب ہر گھر میں چند ہی بچے ہوتے ہیں اور سو جتن کرنے پڑتے ہیں ماں اور بچے کی دوران حمل اور پیدائش کے بعد ایک سال صحت اور غذا اچھی رکھنے کے لیے۔ ہر آنے والی جان کو پالنے والی ذات کو اللہ کی ہی ہے مگر اسباب سے منہ تو نہیں موڑا جا سکتا۔
واپس کریں