دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کی تنزلی کا راز
No image بنگلہ دیشی حکومت ڈھاکہ شہر میں ایک سب وے یا زیر زمین ریلوے نظام بنارہی ہے۔
اس کے پہلے مرحلے پر 29 ارب ڈالرز کی لاگت آئے گی اور یہ آٹھ سال میں مکمل ہوگا۔
پورے پراجیکٹ کی لاگت
101 ارب ڈالرز ہے۔

بنگلہ دیشی جی ڈی پی
عنقریب 500 ارب ڈالرز تک پہنچنے والی ہے۔
اس وقت بنگلہ دیش کے خزانے میں 46 ارب ڈالرز پڑے ہیں۔
متحدہ پاکستان میں یہ کالے کلوٹے
بنگالی اپنے پست قد کاٹھ کی وجہ سے
فوج میں سپاہی بھرتی ہونے کے لائق بھی نہیں تھے۔
ہمارے فوجی افسران کا خیال تھا کہ
بنگالیوں کو بچے پیدا کرنے کے علاؤہ کوئی اور کام نہیں آتا۔
اس لئے ہم انہیں ایک بوجھ تصور کرتے رہے،
ہمیں غلط فہمی تھی کہ
ہم کماکر انہیں کھلا رہے ہیں۔ ہماری وجہ سے وہ محفوظ ہیں اور سکون کی نیند سوتے ہیں۔

لیکن
جس دن انہوں نے
سکون کی نیند کو خیر باد کہہ کر آنکھیں کھولیں تو ان کی قسمت کی دیوی بھی جاگ اٹھی۔

آج ہمارا روپیہ آدھے ٹکے کے برابر بھی نہیں،
جہاں وہ
101 بلین ڈالرز کے پراجیکٹس صرفِ ڈھاکہ شہر میں شروع کررہے ہیں
وہاں ہم
آئی ایم ایف کے چھ ارب ڈالرز کے لیے پورا ملک دینے کو تیار ہیں۔

آخر ہماری تنزلی اور ان کی ترقی کا راز کیا ہے؟

پاکستان سے علیحدگی کے تقریباً 35 سال بعد تک وہاں ہم سے بھی برتر حالاتِ رہے۔
ہم اپنی فضائیہ کے متروکہ لڑاکا طیارے انہیں بطور خیرات دیا کرتے تھے۔
وہاں بھی جمہوریت کی آڑ میں آمریت کا کاروبار چل رہا تھا۔
لیکن پھر انہوں نے آنکھ مچولی کا یہ کھیل ختم کرنے کا فیصلہ کیا ۔
ججوں، جرنیلوں اور مذہبی بیوپاریوں کو اپنے اپنے مقام پر رکھ کر زمام اقتدار سیاست دانوں کے حوالے کی۔

13 سال کے اندر وہ ہمیں بہت پیچھے چھوڑ کر آگے نکل گئے۔

جبکہ دوسری جانب ہمارے ہاں
ففتھ جنریشن وار کے نام سے قوم کو بیوقوف بنانے کا عمل آج بھی جاری ہے۔

یہاں آج بھی ایک باوردی شخص سرحد پر پہرہ دینے کی بجائے معیشت پر ڈاکٹرائن پیش کررہا ہے۔
یہاں انصاف کا ہتھوڑا
آج بھی اسلحہ برداروں کے سامنے بریشم کی طرح نرم اور سیاست دانوں کے لیے فولاد کی طرح سخت ہے۔
اور جو قاضی اس پر نہ ہو راضی تو انجام ہوتا ہے فائز عیسیٰ قاضی والا ۔

یہاں آج بھی ایک سرکاری ملازم یہ فیصلہ کرتاہے کہ الیکشن میں کسے ہروانا اور کسے جتوانا ہے
کس سیاست دان کو تاحیات نااہل اور کس نااہل کو صداقت اور امانت کا سرٹیفیکیٹ دلوانا ہے۔
یہاں آج بھی مذہب سب سے بڑا کاروبار ہے
جہاں راتوں رات ٹی ٹی پی اور ٹی ایل پی جیسے مذہبی جنونیوں کے جتھے پالے اور ابالے جاتے ہیں۔
یہاں آج بھی بھوکوں ننگوں کو پوری دنیا فتح کرنے کے حسین خواب دکھائے جاتے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود واویلا ہے کہ
جمہوریت ناکام ہوگئی
یہاں صدارتی نظام ہونا چاہیے۔

مولا خوش رکھے !
جہاں
نظام کو مقدس سانڈوں نے سینگوں پر اٹھایا ہو
وہاں نظام نہیں ریاست ناکام ہوتی ہے۔
واپس کریں