دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
میانوالی کے سیاسی زعماء اور مرزا اسد اللہ خان غالب کی ذہنی الجھنیں
No image اسلم خان نیازی ممبر پنجاب پبلک سروس کمیشن۔(پہلی قسط)کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ رات کو قریباً 12 بجے میں گہری نیند میں تھا لیکن تحت الشعور میں ایک الگ دنیا بسی ہوئی تھی، اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ادھیڑ عمر کا باریش شخص اعصا کے سہارے مکڑوال چوک کمرمشانی پر غور و فکر میں ڈوبا ہوا اجنبیوں کی طرح کھڑا ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ اجنبی شخص کوئی عام آدمی نہیں، لہذا میں آگے بڑھا تو حیرت کے بحر کراں میں ڈوب گیا کیونکہ سامنے کھڑا ادھیڑ عمر باوقار شخص کوئی اور نہیں بلکہ مرزا اسد اللہ خان غالب تھے۔ میں ادب واحترام سے کورنش بجا لایا اور دو زانو ہو کر عرض کیا کہ مرزا صاحب کمرمشانی قدم رنجا فرمانے کا بہت بہت شکریہ لیکن قبلہ یہ تو فرمایے کہ محلہ بلی ماراں دلی سے اس گمنام دور افتادہ علاقے کمرمشانی ضلع میانوالی میں آنے کا کیا مقصد کیونکہ یہاں تو ایسی تاریخی شخصیت بھی مدفون نہیں جس کی زیارت کے لئے آپ تشریف لائے ہوں۔ اس سوال پر انہوں نے فرمایا کہ میاں عجیب مخمصے کا شکار ہوں۔ پھر گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے کسی پڑھے لکھے نوجوان نے مجھے حلقہ ادب کمرمشانی کے واٹس ایپ گروپ میں شامل کر دیا۔
میں حلقہ ادب کمرمشانی کی گاہے بگاہے پوسٹیں دیکھ لیتا تھا اور خوش تھا کہ کمرمشانی اور ضلع میانوالی کے نوجوان ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں اور ادبی مسائل پر علمی گفتگو کا ملکہ بھی رکھتے ہیں۔ اس دوران یوں ہوا کہ میرا نمبر کسی اور من موجی، منچلے، ناہنجار کے ہتھے چڑھ گیا اور اس نے مجھے میانوالی کی مقامی سیاست سے بھی با خبر رکھنا اپنا فرض اولین سمجھ لیا تو یوں مجھے بادل ناخواستہ آپ کے علاقے کے سیاسی زعماء کے شب و روز اور ان کی آئے دن کی پریس کانفرنسوں کے احوال بھی پڑھنے پڑ گئے اور تب سے ایک عجیب دانشوارانہ کرب میں مبتلا ہوں اور ابھی میرے ہوائیاں اڑاتے چہرے سے یہ کرب آپ کو واضح نظر آ رھا ہو گا۔ کہنے لگے کہ کل ہی یہ خبر بذریعہ واٹس ایپ پڑھنے کو ملی اور پھر وہ خبر اپنے مخصوص لہجے میں سنانے لگے کہ دو سیاسی امیدواروں نے پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ وہ الیکشن جیت کر اپنے حلقوں کے اندر اعلیٰ تعلیمی ادارے اور سپورٹس سٹیڈیمز، روزگار کے مواقع فراہم کرنا، اچھے ہسپتالوں کا قیام، یونیورسٹی آف میانوالی کا این اے 89 میں کیمپس۔
تحصیل عیسیٰ خیل میں سوئی گیس کی فراہمی، پہاڑی نالوں پر منی ڈیمز کی تعمیر، سی پیک پر مسان اور کلور کے مقامات پر انٹر چینجز کی تعمیر، خٹک بیلٹ کو بنیادی ضروریات کی فراہمی، خٹک بیلٹ میں فوجی فاونڈیشن ہسپتال اور سکول کا اجراء وغیرہ وغیرہ۔ اس پر میں نے مودبانہ عرض کیا کہ عزت مآب مرزا صاحب ان وعدوں سے آپ کو کیا مسئلہ ہے تو فرمانے لگے، میاں دیکھو ہم نے شاعری کسی اور شاعرانہ ادبی ماحول میں لکھی تھی جب ان جیسے سیاسی زعماء نہیں ہوتے تھے اس وقت کی شاعری میں فلسفیانہ مسائل کے علاوہ عشقیہ وارداتوں کا بھی خاصہ ذکر و اذکار ہوتا تھا۔ محبوب کے سروقد کو قیامت کے فتنہ سے تشبیہ دینا، کاکل سرکش کی بات کرنا، محبوب کی خمدار زلفیں، محبوب کی بے اعتنایوں کا ذکر، لیکن اب مجھے شدید غم اور فکر لاحق ہے کہ میرے اشعار کی تشریح آپ لوگ کسی سیاسی پیرائے میں نہ شروع کر دیں جو کہ قطعاً میرا مقصد نہیں تھا مثال کے طور پر میانوالی کے عوام سیاسی زعماء کے حالیہ وعدوں کے بعد میرے اس شعر کی تشریح کیسے کریں گے۔
ترے وعدہ پر جئے تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
فرمانے لگے کہ میں تو اپنے محبوب سے مخاطب تھا کہ تری وعدہ خلافیوں کی ایک طویل تاریخ ہے لہذا تم کبھی بھی وصال کا وعدہ ایفا نہ کر پاؤ گے لیکن ان حالیہ پریس کانفرنسوں کے بعد آپ کی تعلیمی درسگاہوں میں اس مندرجہ بالا شعر کی تشریح اساتذہ کرام سیاسی نقطہ نظر سے کریں گے جو کہ میرا کبھی مقصد نہیں تھا۔ اس طرح تو ایک نیا غالب جنم لے گا جو مجھے منظور نہیں بس آپ کمال مہربانی فرما کر مجھے وہ جلدی سے واٹس ایپ والا جوان ملا دیں جس نے مجھے میانوالی کی سیاسی خبریں ارسال کیں تاکہ میں اس سے دو دو ہاتھ کر سکوں۔ میں نے مودبانہ عرض کیا کہ مرزا صاحب، ایک شعر سے کچھ نہیں ہوتا ماشاءاللہ آپ کا بہت ضخیم دیوان ہے۔ کہنے لگے آپ کو پتہ نہیں ہے، پٹھان بہت سادہ اور جذباتی لوگ ہوتے ہیں خٹک بیلٹ کے لوگ ان وعدوں کے بعد اپنے علاقہ کو بہت جلد شداد کی جنت اور فرانس کا پیرس بنتا دیکھ رہے ہیں تو پھر تُو ہی بتا میرے اس شعر کا کیا بنے گا۔
کم نہیں جلوہ گری میں تیرے کوچے سے بہشت
یہی نقشہ ہے ولے اس قدر آباد نہیں۔
مرزا غالب رک نہیں پا رہے تھے تو میں نے دست بستہ عرض کی کہ حضور والا اگر خٹک بیلٹ بہشت بن بھی گئی تو جو یقینا اس پریس کانفرنس کے بعد کوئی انہونی بات تو نہیں ہو گی اس سے آپ کو کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ آپ تو کوئی بہشت جانے کے اتنا رسیا کبھی بھی نہیں رہے کیونکہ آپ نے بڑی بی اعتنائی سے کہا تھا کہ
طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
تو مرزا غالب نے برجستہ جواب دیا کہ اب خٹک بلٹ کے لوگ اپنے علاقے کو بہشت بنانے کے چکر میں ان حالیہ پریس کانفرنس والوں کو ووٹ دیکر منتخب کروائیں گے تو میرے شعر کی پھر کیا وقعت رہے گی کیوں کہ میں نے تو گہرے فلسفے کی بات کی تھی۔ میں نے تو شراب اور شہد کی چاہت کی بات کی تھی، تو میں نے مودبانہ عرض کیا کہ مرزا صاحب اگر پریس کانفرنس والے امیدوار اگر جیت گئے تو کیا پتہ ان کے ترکش میں ایک تیر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ خٹک بیلٹ کے لوگوں کے مفاد میں کوئی شہد بنانے کا جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے کارخانہ ہی لگا دیں اور پھر خٹک بلٹ کے باسی پائی خیل کے ذہین کاروباری لوگوں کی طرح یہ خالص شہد پاکستان کے تمام علاقوں میں اور بیرونی ممالک میں بھی فروخت کریں گے اور خوب دولت کمائیں گے اور اپنے ان محبوب قائدین کو ساری عمر منتخب کراتے رہیں گے۔ میرے اس آئیڈیا پر مرزا غالب حیران و پریشان ہو کر مکمل ساکت ہو گے۔ کچھ دیر بعد وہ یک دم مڑے اور کہا کہ اب پریس کانفرنس اگر کسی بہت ہی جذباتی اور irrational سپورٹر کے ڈیرے پر ہو گی جس کو میانوالی میں آپ لوگ سفید پوش کہتے ہیں تو انتظام و انصرام کو اس حد تک دیکھا جائے گا اور پھر آپ میرے اس شعر کو اس صورتحال میں منطبق کر کے میرے زخموں پر نمک پاشی کرو گے،
گلشن میں بندوبست بہ رنگ دگر ہے آج
قمری کا طوق، حلقہ بیرون در ھے آج
غالب کو پتا نہیں کیا ہوا تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ واٹس ایپ والے کا مختصر پوچھنے کے بعد ذرا درشت لہجے میں گویا ہو ئے کہ پریس کانفرنسوں والے امیدوار میرا یہ شعر جو اب میں سنانے لگا ہوں ووٹروں کو سنا کر داد پائیں گے اور اس کی تشریح محبوب اور عاشق کے حوالے سے نہیں بلکہ سیاسی منظر نامہ پیش کرتے ہوئے ووٹروں کے ساتھ اپنے گہرے اور دیرپا اٹوٹ انگ تعلقات کا ذکر کے ساتھ کریں گے۔
گھر جب بنا لیا ترے در پر، کہے بغیر
جائے گا اب بھی تو نہ، میرا گھر کہے بغیر
میں نے مرزا غالب کی خدمت میں عرض کیا کہ چلیں اب میں آپ کو یہاں سے قریب ہی فقیر حبیب اللہ کے چھپرے میں لے چلتا ہوں جو کہ کمرمشانی میں دانش کدہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کدہ کے لفظ سے مرزا صاحب کے چہرے پر خوشی کے آثار نمودار ہوئے۔ میں نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں باقی لوگوں کو بھی بلا لیتا ہوں اور گفتگو کا سلسلہ وہیں سے جوڑیں گے جہاں پے ختم کیا تھا تاکہ سب شرکا میری اور مرزا صاحب کی سابقہ گفتگو سے بات کو آگے بڑھا سکیں۔ مرزا غالب مان گے لیکن ساتھ یہ شرط لگا دی کہ وہ اپنی گفتگو اپنی شاعری کی بے توقیری کے حوالہ سے جاری رکھیں گے اور اس کے بعد فقیر حبیب اللہ اور اس کے دانشور ساتھی جس موضوع پر بات کرنا پسند کریں گے میں پوری مگن کے ساتھ اپنی بھرپور شرکت کروں گا۔
میں نے موقعہ کو غنیمت جانا اور جتنا جلدی ممکن ہو سکا حبیب اللہ فقیر، حبیب اللہ سماجی ورکر، عامر استاد، عصمت اللہ نیازی، غلام حسین قریشی، ریاض خالق، پروفیسر خلیل الرحمٰن، ساجد، سیف اللہ ننزائی، راحیل دانش اور بد مزاج بوڑھے کو بلا لیا اور الطاف اور ظفر صاحبان دونوں کو کہا کا آپ سعودی عرب اور کینیڈا سے باترتیب ہمارے ساتھ لائن پر موجود رہیں۔ سب لوگ مرزا غالب جیسی عالمی شخصیت کی کمرمشانی میں موجودگی پر شاداں اور فرحاں نظر آئے ۔ سب کی خوشی دیدنی تھی اور اس خیال سے ہی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ مرزا سے سوالات و جوابات کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔
(جاری ہے)
واپس کریں