دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
میانوالی سماجی کشمکش کے دوراہے پر۔محمد اسلم خان نیازی،سابق ممبر پنجاب پبلک سروس کمیشن
No image میانوالی کے سماج کا اگر تاریخی تناظر میں جائزہ لیں تو ماضی بعید سے لے کر 1960 یا 1970 تک ایک ٹہراؤ محسوس ہو گا، جیسے راٹ میں بیل ایک ہی ڈگر پر دائرہ کی شکل میں گھومتا رہتا ہے۔ اس وقت کے سماج کی آگر درجہ بندی کریں تو یہ میکانکی سماج کے قریب تر تھا۔ بہت لمبے عرصہ تک آباو اجداد کے پیشوں میں کوئی جدت یا تبدیلی نہیں آئی تھی۔ کیونکہ تبدیلی لانے کے لیے باہر کی فضا میں کوئی محرک نہیں تھا۔ تبدیلی کے محرک میں اول یا تو پیداواری ذرائع میں کوئی تنوع آتا یا پھر بڑے پیمانہ پر ریاست تعلیمی میدان میں ایسی پالیسیاں لے کر آتی جس سے بڑی تعداد میں لوگ تعلیم یافتہ ہو جاتے، نتیجتاً، پیداواری ذرائع میں وسعت اور تنوع پیدا ہوتا اور عوام الناس کے پیشوں میں اسی ترتیب سے جدت آتی۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور لوگوں کے سماجی روابط اسی میکانکی سماج کی بنیاد پر چلتے رہے۔ بہت دیر تک میانوالی کے سماج میں گاؤں میں چٹھی پڑھنے کے لئیے بھی مخصوص لوگ ہوا کرتے تھے کیونکہ عمومی طور پر سماج ناخواندہ تھا۔
ضلع میں کوئی قابل ذکر شہر تو دور کی بات، کوئی بڑا قصبہ بھی نہ تھا اور تمام ضلع دیہاتوں پر مشتمل تھا۔ دیہاتوں میں لوگوں کا روزگار کا ذریعہ زراعت تھا لیکن اس میں بھی قباحت یہ تھی کہ زیادہ پیداوار ہونا بہت مشکل تھا کیونکہ زیادہ قابل کاشت زمین بارانی تھی۔ اس نیم زراعتی پیشہ نے ایک نیم قبائلی نظام کی آبیاری میں مدد کی۔ اور لوگوں کے سماجی تعلقات اسی نظام کے عکاس تھے۔ اگر خاندان میں کسی نے کوئی سنگین جرم یا غلط کام بھی کیا ہو تو آپکا فرض بنتا تھا کہ آپ پھر بھی اس مجرم کا دفاع کریں کیونکہ وہ آپ کے خاندان یا خیل سے تعلق رکھتا ہے۔ لوگ اکثر اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا کر کئی دہائیوں تک اور نسل در نسل باہمی قتل و غارت گری میں مشغول رہتے۔ اس خاندانی دشمنی کے پس منظر میں کس طرح کی سیاست پروان چڑھی ہو گی، اس کا تجزیہ کوئی بھی صاحب فراست شخص اپنی عقل کے مطابق کر سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اپنی عقل و فراست پر دربان اندھے جذبات کو نہ بٹھا رکھا ہو یا عقیدت کی عینک نہ لگا رکھی ہو۔ معاشرہ اس نہج پر پہنچ گیا تھا کہ اگر کسی کی ذاتی دشمنی نہ ہوتی تو لوگ اس خاندان کو ایک عام سا کمزور خاندان سمجھتے۔بلکہ بہادری کا میعار یہ تھا کہ بہادر آدمی یا تو جیل میں ہوتا ہے یا قبر میں۔ اس ثقافتی ماحول اور لوگوں کے آپس کے سماجی تعلقات نے ایک مخصوص طبقہ کو حق حکمرانی دیا ہوا تھا اس لیے کسی شخص کے اندر یہ خیال جاگزیں بھی نہیں ہوتا تھا کہ اس مخصوص ٹولے کے علاوہ بھی سیاست کرنے کا کوئی اور شخص بھی مستحق ہو سکتا ہے۔
اس موروثی سیاست میں مرحوم ڈاکٹر شیر افگن خان نے کامیاب شب خون مارا لیکن وہ بھی وتہ خیل برادری کی ایکتا سے ممکن ہو پایا۔ لیکن بدقسمتی سے ڈاکٹر صاحب بھی دھڑے اور برادریوں کی ذاتی مفادات کی سیاست کو کمزور نہ کر سکے یا پھر شاید اس وقت کا معروضی سماج ابھی ذاتی مفادات کی سیاست سے اوپر اٹھ نہیں پایا تھا۔ ان معروضی حالات میں نمبردار، خاندان کا چٹ کپڑیا، پیر فقیر، آستانے، ان کم علم ووٹر اور ان موروثی امیدواروں کے درمیان بالواسطہ رابطے کا ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ ان تمام سفید پوشوں کی الف تھانہ کچہری سے شروع ہو کر تھانہ کچہری پر ہی ختم ہو جاتی تھی۔ سفید پوشوں کے اس گروہ نے کبھی بھی معاشرہ کے مفادات کو اولیت نہیں دی اس لیے اجتماعی مفاد عامہ کا تصور ہماری سیاست میں کمزور رہا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کے تغیر کے عمل کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اب میانوالی کی سیاست ایک کشمکش کے دور سے گزر رہی ہے۔
ایک طرف آزمائے ہوئے سیاسی جغادری پرانی زنگ آلودہ بین پر نام نہاد ترقیاتی منصوبوں کی الاپ مسلسل بجا رہے ہیں اور نوید سنا رہے ہیں کہ اس دفعہ پھر ہم جیت کر میانوالی کو گل و گلزار بنا دیں گے۔ لیکن ان سے کوئی پوچھے کہ آپ کا کام تو ایوانوں میں جا کر قانون سازی کرنا ہوتا ہے، آپ ترقیاتی کام مقامی حکومتوں کے نظام کو بہتر بنا کر ان سے کروائیں تو جواب آیں بایں شاہئں کے علاؤہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔ دوسری طرف ایک پوری تعلیم سے لیس نوجوان نسل پورے شعور کے ساتھ اپنے مسائل کو سمجھ کر ایک نئے سماج کی تشکیل کے مراحل سے گزر رہی ہے ۔ اسی سماجی کشمکش میں ریاستی ادارے اس نئے سماج کی تشکیل میں پرانے بادشاہ گروں کے آلہ کار بن کر رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ لیکن سورج نے ضرور کالی اور سیاہ رات کے بعد بہر صورت طلوع ہونا ہی ہونا ہے۔ کھیل توجہ اور یکسوئی کا طالب ہے۔ اور دیکھتے ہیں کہ کیا اجتماعی مفادات کی سیاست فرسودہ انفرادی سیاست کے بتوں کو پاش پاش کر پائے گی اور ہمارے ایوانوں میں کیا تعلیم یافتہ نوجوان جا پائیں گے اور مقامی اور قومی سیاست میں ایک نیا سیاسی کلچر متعارف کروا پائیں گے یا پھر ہم اسی موجودہ سیاسی دلدل میں مزید پھنستے جاہیں گے۔
واپس کریں