دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"معاشرہ اور منٹو"از قلم : وسیم قریشی
No image آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے۔۔۔مگر جب معاشرے کو منٹو نے کردار کا آئینہ دکھایا تو منٹو فحش بن گیا.ہمیں سچ سننے کی عادت نہیں تھی اور منٹو کو جھوٹ لکھنے کی عادت نہیں تھی۔ کیونکہ سچ کڑوا ہوتا ہے اور سچ کہنے والا فحش ہوتا ہے۔ہم چہرے پر لباس اوڑھے پھرتے تھے تو منٹو ننگا کر دیتا تھا. درحقیقت میری نظر میں منٹو بڑے ظرف کا مالک تھا کیونکہ ایک مرد کی حیثیت سے عورت کے کردار پر منفی افسانے یا باتیں لکھنا تو بہت آسان ہے اور آج کل کے فیس بک پر بیٹھے عظیم دانشور اور فلاسفر اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر ثوابِ دارین حاصل کرنے کی کوشش میں سر فہرست اور صف اول نظر آتے ہیں.
مگر ایک مرد ہو کر ایک مرد کے کردار کے منفی پہلو کی عکاسی کرنا، اپنے عیب لکھنا اور اپنے آپ کو گالی دینا اور اپنے کردار پر خود ہی ندامت کرنا داڑھی میں چھپا شیطان اور کلین شیو فرشتہ،. مولوی میں چھپا ہوس کا درندہ اور چرس کا کام کرنے والا انسان یا نمازی تلاش کرنا، قمیض شلوار سا قومی لباس پہن کر، شلوار کو ٹخنوں سے اوپر رکھنا، چہرے پر ڈاڑھی رکھ کر، پنجگانہ نماز کی ادائیگی، عمرہ، حج، زکواۃ کا پابند، شریف النفس، شرف الدین، بات بات پر حدیث کا مکالمہ کرنا، شرافت اور دین کا درس دینا، اللہ والا، ولی، یا پیر و مرشد نظر آنا، رت جگوں میں تسبیح پھیرن، لمبے لمبے سجدے، طویل دعائیں، ماتھے پر مہراب مگر
یتیموں کی جائیدادیں ہڑپ کرنا، ہمسایوں کی حق تلفی کرنا، جھوٹ بولنا، سود کا کاروبار کرنا، رنڈی کے کوٹھے پر جانا، مجرے کی محفل سجانا، رشتے داروں سے ناراضگی رکھنا، بہنوں کی جائیداد کا حصہ کھا جانا، ناپ تول میں کمی کرنا، جھوٹ بول کر سودا فروخت کرنا، شراب پینا، رشوت لینا رشوت دینا، بیوی پر جبر کرنا، چھوٹی بچیوں سے زیادتی کرنا، قتل کر دینا، لاش کو کچرے میں پھینک دینا، قرآن پڑھنے آنے والے چھوٹے لڑکوں سے زیادتی کرنا، فحش فلمیں دیکھنا، فریب، دھوکہ، حسد، غریب کا حق کھانا، مزدور کی مزدوری کھانا، عورت کی مجبوری پر اپنی ہوس کا نشانہ بنانا۔
مرد ہو کر یہ سب لکھنا ہے تو ہمیں منٹو سے سیکھنا ہوگا، ہمیں سچ لکھنے اور اپنے عیب لکھنے کی ہمت
پیدا کرنی ہوگی. منٹو نے ہمارے پیچہرے سے پردہ ہٹا کر ہمارے مکروہ چہروں سے زمانے کی فحاشی کو لکھا تو منٹو فحش بن گیا اور ہم شریف ہی رہ گئے۔ شرافت کا جو جھوٹا لبادہ ہم نے زیب تن کیا ہوا ہے منٹو ایسے لباس کی نسبت ننگا رہنا زیادہ پسند کرتا تھا.
کیونکہ جب باطن کالا ہو تو ظاہر کو سفید کپڑے پہن کر سفید رکھنے کی کوشش کرنا آپ اور مجھ جیسے کم ظرف تو کر سکتے ہیں مگر منٹو جیسا سچ پسند اور تلخ حقائق لکھنے والا ایسا چاہ کر بھی نہیں کر سکتا تھا.
منٹو کو ہمارے معاشرے میں ہم نے زندہ رکھا ہوا ہے اور ممکن ہے کہ اس دنیا کے اختتام تک منٹو اس وجہ سے زندہ رہے گا کہ وہ ہر معتبر اور جعلی معزز، شریف النفس انسان کے پیچھے چھپا ہوا درندہ صفت شیطان کا پردہ فاش کر سکے.
ہم آئینے میں شکل دیکھتے ہیں جب کہ منٹو اپنے آپ کو دیکھتا تھا.آخر ہمارے اندر جب تک یہ مکروہ چہرہ، ناپاک عزائم، جھوٹی شرافت، دکھاوا، فریب، دھوکا، جھوٹ وغیرہ موجود ہے تب تک منٹو بھی اس معاشرے میں موجود رہے گا.
ایسے ہر شخص کو آئینہ میں اپنی جگہ منٹو نظر آتا رہے گا اور لعنت، ملامت کرتا رہے گا۔ہمارے دل میں بغض، عناد، لالچ، فساد، حسد، ناپاک خیالات، ناپاک عزائم، ناپاک جسارت، ناپاک ارادے اور خواب ہمیں تباہ و برباد کر رہے ہیں.
اگر ایسی مشکل اور کٹھن گھڑی میں کوئی شمع بن کر نکلے، کوئی چراغ لے کر نکلے، کوئی مشعلِ راہ بن کر ہمیں حقیقت دکھانے کی کوشش کرے تاکہ ہم خود کا قبلہ درست کر لیں اور راہ راست پر آ جائیں تو وہ ہمیں فحش لگتا ہے، فسادی لگتا ہے، گندا لگتا ہے۔
نفس کی غلامی، بیگانگی، بے راہ روی، طیور کرداری، وحشیانہ سوچ، گناہوں کی دلدل، صحرا کے تاریک اور پر خطر سناٹے، اگر کوئی اس سب کی حقیقت دکھا دے ہمارے گریبان کے میلے اور بدبودار کالر دکھا کر ہمارے کردار کی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے سچ کی کڑواہٹ کا زہر ہماری رگوں میں اتار بھی دیتا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟
کوئی اپنا، کوئی شجر ،کوئی حجر، کوئی اقارب ہی بہرحال ایسا کر سکتا ہے۔ تزکیہ اگر ہماری نیتوں اور دلوں میں بسیرا کر لے تو منٹو اور منٹو کے افسانے اپنی موت آپ ہی مر جائیں گے.
ہمیں اپنی غلطیوں پر نہ کوئی درد ہے نہ سوز ہے، نہ گدازی قلب ہے اور نہ ہی اشک ندامت ہے. ہم کسی چمگادڑ کی طرح اپنے پرندہ اور جانور ہونے کا ثبوت پیش کر کے میدان میں دونوں طرف کے سپاہی بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کیونکہ ہم بھی مولوی،بشپ، پادری نمازی، عبادت گزار، تحجد گزار بھی ہیں اور جھوٹے اور عیب دار بھی۔
منٹو کے کچھ اقوال اور افسانوں کا مجموعہ پیش کرتے ہوئے بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کروں گا.
"اگر کوئی لڑکی کسی سے محبت کرے تو ضروری نہیں کہ وہ بدکردار ہی ہے"
جی تو کیا برا کہا، کیا غلط لکھا؟
محبت کرنا جرم نہیں ہے، محبت ہو ہی جاتی ہے۔ البتہ محبت کی آڑ میں جسموں کی تجارت کرنا درست نہیں ہے۔ منٹو نے کب لکھا کہ کہ اگر کوئی لڑکی محبت کرے اور کسی کے ساتھ رات گزار لے تو وہ بدکردار نہیں ہے؟
"سو میں سے سو مکھیاں شہد کی طرف بھاگی آئیں گی اور سو میں سے ننانوے لڑکیاں بھونڈے پن سے متاثر ہوں گی"
یہ بھی کچھ غلط نہیں لکھا منٹو نے، زیادہ تر لڑکیاں شوخ، چنچل، مست، نکمے، ناکارہ لڑکوں سے ان کی شرارتوں سے متاثر ہو کر دل لگا لیتی ہیں۔
کلاس میں زیادہ حرکتیں اور شرارتیں کرنے والا، زیادہ بولنے والا، زیادہ اداکاری کرنے والا، پوری کلاس کو ہنسانے اور چھیڑنے والا مسخرہ اور پیچھے پیچھے بیٹھ کر اساتذہ پر فکرے کسنے والا لڑکا لڑکیوں کو زیادہ متاثر کرتا ہے اور اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔
ایک سنجیدہ، زمہ دار ،خاموش طبیعت اور سادہ فطرت کا حامل لڑکا لڑکیوں کو کم کم ہی پسند آتا ہے۔ وگرنہ بور ہونے اور بیزار ہونے کا خطرہ ہوتا ہے لڑکی کو کہ ایسے بندے کے ساتھ کون زندگی گزارے۔
"سچی بات کہنے والا بے ادب سمجھا جاتا ہے"
تو کیا غلط لکھا منٹو نے؟
مشاہدہ کر کے دیکھ لیں. خوشامدی لوگوں کو اچھا، پارسا، نیک، سمجھدار، با ادب، تربیت یافتہ اور تعلیم یافتہ سمجھا جاتا ہے۔ سچ کہنے اور لکھنے والوں کو بدتمیز، بدزبان، زبان دراز، تیز، چالاک، اور بے ادب، کڑوا ہی سمجھا جاتا ہے.
"دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں بھوک ان کی ماں ہے"
یہاں بھی غلط لکھا؟
بھوک تہزیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔
یہ جسم فروشی، قتل و غارت، چوری، ڈکیتی یہ سب کچھ بھوک اور ناانصافی کا ہی نتیجہ ہیں. ایک پاکیزہ عورت جسم فروش بن جاتی ہے. ایک پڑھا لکھا جوان دہشت گرد بن جاتا ہے۔
ایک باپ اپنے ہی بچوں کا قاتل بن جاتا ہے. ایک ماں اپنے ہی جگر کے گوشوں کو اپنے ہی ہاتھوں زہر پلا کر خود بھی پی کر مر جاتا ہے۔ ایک باپ بچوں سمیت دریا میں کود جاتا ہے، ایک ماں اپنے ہی بچوں کو فروخت کرنا شروع کر دیتی ہے. ایک باپ اپنی ہی بیٹی کا جسم بیچنا شروع کر دیتا ہے۔ ایک شوہر اپنی ہی بیوی کو دوسروں کے سامنے بے لباس کر دیتا ہے۔
اس سب کی وجہ اس سب کا آغاز ہمیشہ بھوک ہی سے ہوتا ہے... البتہ انجام کے وقت یا دوران میں حالات بہتر ہونے کے باوجود بھی وجوہات بدل جاتی ہیں۔
"میں نے سوچا ایک آدمی کا مرنا موت ہے اور ایک لاکھ آدمیوں کا مرنا تماشا ہے"
کیا غلط لکھا ہے! کیا ایک سے زیادہ لاکھوں افراد کا بیک وقت مر جانا، بہت سی سہاگنوں کا سہاگ اجڑ جانا، بچوں کا یتیم ہو جانا، والدین کا بے اولاد ہو جانا وہ بھی ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں... تماشا نہیں تو پھر کیا ہے؟
"انگریزی تہزیب و تمدن نے ہمیں اتنا ترقی یافتہ کر دیا ہے کہ اب عورتیں بازاروں میں پتلون پہن کر پھرتی ہیں۔ کچھ ایسی بھی ہیں جو قریب کچھ نہیں پہنتی پھر بھی آزادانہ گھومتی پھرتی ہیں"
کیا غلط لکھا؟
کیا ہمارے بازاروں میں پتلون، شرٹ، ٹاءیٹس، تنگ اور جسم سے چپکے خواتین کے لباس، گرمی میں پسینے سے شرابور باریک لباس میں سے نظر آنے والے خواتیں کے جسم، ننگے سر، بڑے بڑے گلے، تنگ، باریک اور چھوٹی شلواریں، ایلیٹ کلاس لوگوں کی محفلوں میں ننگے مجرے، ڈانس پارٹی، منٹو کے اس بات کی سچائی کر چلا چلا کر تصدیق نہیں کر رہے؟
"میرے الفاظ گندے نہیں ننگے ہیں گندی تو فقط معاشرے کی سوچ ہے"
کیا غلط لکھا ہے؟
منٹو کے اپنے الفاظ تو ہیں ہی نہیں۔ یہ الفاظ نہیں نہ ہی کوئی افسانہ۔ ہمارا کردار ہے جو منٹو نے الفاظ کی لڑی میں جوڑا ہے۔
اگر گندے ہیں تو الفاظ نہیں ہمارا کردار، ہماری سوچ.. اور میرے خیال میں منٹو کے الفاظ ننگے بھی نہیں ہیں... لیکن ہمیں ننگا ضرور کر دیتے ہیں.
"رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار ان دونوں جگہ مجھے سکون ملتا ہے کیونکہ دونوں جگہ ہی فریب ہے.
کوٹھے پر والدین اپنی بچیوں سے پیشہ کرواتے ہیں اور مزار پر........."
اس کا نچوڑ آپ خود نکال سکتے ہیں...
اگر طوائف کا مطلب ہے پیسے لے کر عزت کا سودا کرنا ہے تو پھر پورا ملک ہی رنڈی کا کوٹھا ہے.
معذرت!
میں قلم کو کنڈم پہنانے کا قائل نہیں ہوں "
کیا غلط لکھا؟
ہر محکمے ہر ادارے میں پیسے لے کر عزت کا سودا کیا جاتا ہے۔ اپنا ایمان، اہنا ضمیر، اپنا ملک اپنا وقار، یہاں سب کچھ تو برائے فروخت ہے تو کیا غلط لکھ دیا منٹو نے؟
بس ہمیں ہماری شکل دکھا دی.
" جب عاشق کے پاس الفاظ ختم ہو جاتے ہیں تو وہ چومنا شروع کر دیتا ہے"
"ہر شخص خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا اپنی زندگی میں ایسی حرکت ضرور کرتا ہے جس پر وہ ساری عمر نادم رہتا ہے۔ "تم صرف خامیاں ہی دیکھتے ہو اچھائیوں پر تمہاری نگاہ کبھی نہیں پڑتی"۔ "مرد کے اعصاب پر عورت نہ سوار ہو تو کیا ہاتھی گھوڑے سوار ہوں گے"۔ "مسجد میں دیو بندی، شیعہ، سنی، وہابی مگر سینما میں ایک زات"۔
کیا خوب لکھا ہے منٹو صاحب دل جیت لیا آپ نے تو میرا... یہاں لوگ ایک میخانے میں، ایک بازار میں، ایک دکان میں، ایک پارک میں، ایک میکدے میں، ایک دستر خوان پر، ایک ہی لفٹ میں، ایک ہی ٹرین میں ایک ہی بس، گاڑی یا لفٹ میں، ایک ہی سکول میں، دفتر میں، کالج، یونیورسٹی میں، ایک ہی سیاسی پارٹی میں، ایک ہی اسمبلی، ایک ہی کابینہ، ایک ہی جلسے، ایک ہی چھت کے نیچے کھڑے ہو کر جمع ہو جاتے ہیں ایک ہی سٹیڈیم میں ساتھ بیٹھ کر میچ دیکھ لیتے ہیں ایک ہی سینما میں فلم دیکھ لیتے ہیں ایک ہی نہر میں نہا لیتے ہیں ایک ہی سمندر پر پکنک منا لیتے ہیں،ایک ہی برتن میں کھا لیتے ہیں، ایک ہی واش روم میں حاجت کر لیتے ہیں، آپس میں رشتے داریاں بھی کر لیتے ہیں...
مگر افسوس ایک ہی مسجد میں اکٹھے نہیں ہو سکتے... ایک ساتھ عبادت نہیں کر سکتے، مزہبی رسومات ادا نہیں کر سکتے۔
افسوس سد افسوس
یہ دیکھ کر منٹو صاحب میں آپ کی اجازت سے کہنا چاہتا ہوں کہ "ہمارے سب کے شیطان تو ایک ہی ہیں مگر خدا الگ الگ ہیں"۔
"جو شخص زندہ رہنے کا سلیقہ نہیں جانتے ان کیلئے زندہ رہنا بھی موت کے برابر ہے"
اس بات پر مجھے شعر یاد آگیا
تہزیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ
تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی
"میرے شہر کے معززین کو میرے شہر کی طوائفوں سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا"
"ہم عورت اسی کو سمجھتے ہیں جو ہمارے گھر کی ہو باقی ہمارے لئے کوئی عورت نہیں ہوتی بس گوشت کی دکان ہوتی ہے اور ہم اس دکان کے باہر کھڑے کتوں کی طرح ہوتے ہیں. جن کی ہوس زدہ نظر ہمیشہ گوشت پر ٹکی رہتی ہے"
بخدا حرف بہ حرف سچ ہے..
اپنی بہن کے سر پر دوپٹہ اور دوسروں کی بہنوں کے سر ننگے اور کھلے ہوئے ہی اچھے لگتے ہیں...
منٹو صاحب کیا کر دیا آپ نے... آپ نے تو مجھے میری ہی نظروں سے گرا دیا، شرمندہ کر دیا... نہ ہم ایسے ہوتے نہ آپ یہ سب لکھتے... آخر آپ کو یہ سب الہام کیسے ہو جاتے تھے؟
"جس نیت سے طوائف برقع پہنتی ہے اسی نیت سے کچھ مرد داڑھی رکھ لیتے ہیں"
"ہمارا معاشرہ ایک عورت کو کوٹھا چلانے کی اجازت تو دیتا ہے مگر تانگہ چلانے کی نہیں"
موجودہ حالات کی سب سے بڑی حقیقت لکھ دی آپ نے تو سر،کمال ہی ہو گیا...
"فقط بستر کی سلوٹ زدہ چادر پر گزارے جانے والے کچھ بدبودار لمحے محبت نہیں کہلاتے"
غلط لکھ دیا منٹو صاحب ادھر آپ نے کیونکہ ہماری نظر میں تو محبت کا دوسرا نام ہی سیکس ہے، جسمانی تسکین ہے، گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ، ہوٹل میں گزاری جانے والی راتیں، جوس کارنر پر گزرنے والا وقت اور چند لمحوں کی لزت اور کپڑے اتار کر ننگا ہونا اور اپنی اپنی پیاس بجھانا ہی تو محبت ہے۔
محبت کا درس بھلا ایک فحش شخص کیسے دے سکتا ہے۔ آپ تو فحش ہیں منٹو صاحب کیونکہ آپ ہمیں محبت کی خوشبو کو جسم کی بدبو میں تبدیل کرنے سے روک رہے ہیں۔
"ہمارا معاشرہ ایک کوٹھے پر جسم فروش عورت کو طوائف اور بدکردار تو کہتا ہے مگر اس کے پاس جانے والے مرد کو کوئی مخصوص نام نہیں دیتا"
منٹو صاحب اب تو مجھے یقیں ہو گیا کہ آپ فحش تھے... کیا آپ نہیں جانتے کہ نمازی، حاجی، اور شریف النفس شریف لوگ، با کردار، سچے، پاکیزہ لوگ جاتے ہیں اس کے کوٹھوں پر تو معاشرے نے کتنے سارے نام تو دے دئیے ہیں البتہ دلال یا کنجر کہنا مناسب نہیں ان کو.۔
منٹو صاحب آپ درست کہتے تھے کہ
"سعادت حسن اور منٹو ایک ساتھ ہی پیدا ہوئے تھے اور ایک ساتھ ہی مرنا تھا لیکن شاید سعادت حسن مر جائے گا اور منٹو زندہ رہے گا"
دیکھ لیں سعادت حسن مر گیا، دفن ہو گیا پر آپ آج بھی زندہ ہیں منٹو صاحب اور تب تک زندہ رہیں گے جب تک یہ بدکرداری ہمارے اندر موجود رہے گی۔
واپس کریں