دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کے تین ٹکڑے: عمران خان کی خواہش یا معروضی حقیقت؟
No image پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے متنبہ کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ’درست فیصلے‘ نہ کیے تو فوج تباہ ہو جائے گی اور ’پاکستان کے تین حصے ہو جائیں گے۔‘ ان خدشات کا اظہار انھوں نے نجی ٹی وی چینل ’بول‘ کے اینکر سمیع ابراہیم سے گفتگو کے دوران کیا۔ اس شو کے دوران عمران خان سے پوچھا گیا کہ اگر ملک کی اسٹیبلشمنٹ ان کا ساتھ نہیں دیتی تو ان کا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ اصل میں پاکستان کا مسئلہ ہے، اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ صحیح فیصلے نہیں کریں گے، یہ بھی تباہ ہوں گے۔ فوج سب سے پہلے تباہ ہو گی۔’ انھوں نے کہا کہ ‘اگر ہم ڈیفالٹ کر جاتے ہیں تو سب سے بڑا ادارہ کون سا ہے جو متاثر ہو گا، پاکستانی فوج۔
انھوں نے کہا کہ ‘میں آپ کو ترتیب بتا دیتا ہوں۔ یہ جب سے آئے ہیں روپیہ گر رہا ہے، سٹاک مارکیٹ، چیزیں مہنگی۔ ڈیفالٹ کی طرف جا رہا ہے پاکستان۔ اگر ہم ڈیفالٹ کر جاتے ہیں تو سب سے بڑا ادارہ کون سا ہے جو متاثر ہو گا، پاکستانی فوج۔ جب فوج ہِٹ ہوگی تو اس کے بعد ہمارے سامنے کیا شرط رکھی جائے گی جو انھوں نے یوکرین کے سامنے رکھی تھی کہ ڈی نیوکلیئرائز کریں (یعنی جوہری ہتھیار ختم کر دیں)۔ واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ جب وہ چلا گیا تو پھر کیا ہو گا۔ میں آپ کو آج کہتا ہوں کہ پاکستان کے تین حصے ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ ‘اس وقت اگر صحیح فیصلے نہیں کیے جائیں گے تو ملک خودکشی کی طرف جا رہا ہے۔ میں اس لیے زور لگا رہا ہوں۔’
عمران خان کے سیاسی مخالفین جہاں ان کے بیان کی مذمت کر رہے ہیں وہیں ان کے حامی اس کی وضاحتیں پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ’کوئی بھی پاکستانی اس ملک کے ٹکڑے کرنے کی بات نہیں کر سکتا، یہ زبان ایک پاکستانی کی نہیں بلکہ مودی کی ہے۔ عمران خان دنیا میں اقتدار ہی سب کچھ نہیں ہوتا، بہادر بنو اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر سیاست کرنا اب سیکھ لو۔’ اس ملک کے تین ٹکڑے کرنے کی خواہش ہمارے اور ہماری نسلوں کے جیتے جی پوری نہیں ہو سکتی۔’
سابق وزیر اعظم کی جانب سے استعمال کیے گئے یہ الفاظ اگر کالعدم تنظیموں کی جانب سے آتے تو شاید دکھ اور تکلیف نہ ہوتی، شاید ان الفاظ کی چبھن اتنی محسوس نہ ہوتی، شاید یہ الفاظ کے نشتر یوں دل میں پیوست نہ ہوتے، شاید آنکھوں سے لہو نہ ٹپکتا، شاید ہی دھڑکنیں یوں بے ترتیب نہ ہوتیں۔ لیکن یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جو 16 فیصد پاکستانیوں کے ووٹ لے کر منتخب ہوا، جو نوجوانوں کی امید ہے، جس میں بزرگ اپنے خوابوں کی تکمیل دیکھ رہے تھے۔ جس شخص کو بچے رول ماڈل سمجھ رہے تھے، جو شخص تین سال پاکستان کا وزیراعظم رہا۔
محترم خان صاحب! جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار سے آپ کو علیحدہ کیا گیا تو آپ نے ایسا بیان دے دیا۔ حضور والا! یہاں بلوچستان میں ایمبولینس میں محبوس قائداعظم نے بھی آخری سانس میں اللہ، اللہ پاکستان کہا، یہاں لیاقت علی خان کو دن دیہاڑے قتل کردیا گیا، یہاں بھٹو جیسے عظیم لیڈر کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، یہاں ولی خان کو دہائیوں بیڑیوں میں جکڑ کر رکھا گیا، یہاں حاملہ خاتون پر الیکشن مسلط کیا گیا تاکہ وہ کامیابی حاصل نہ کرسکے، یہاں فاطمہ جناح کو غدار کہا گیا، یہاں تین بار کے منتخب وزیراعظم کو مکھن سے بال کی طرح نکال دیا گیا مگر کسی نے ملک خداداد کی سالمیت پر کوئی لفظ نہیں اٹھایا۔
چیئرمین تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے ٹکڑے ٹکڑے ہوسکتا ہے، تو میں اور ہر پاکستانی یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ محترم عزت مآب! اقتدار کے آخری دنوں میں آپ نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ توڑ کر بغیر رقم سبسڈی دے کر ملک کو ڈیفالٹ کی طرف کیوں دھکیلا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ ڈیفالٹ ملک تقسیم ہونے کی وجہ بن سکتا ہے تو موجودہ حکومت نے پٹرول مہنگا کرکے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کی کوشش کی ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ حکومت آپ سے زیادہ محب وطن ہے۔ محترم عمران خان! آپ اس دیس کو توڑنے کی بات کررہے ہیں، جس کی بنیادوں میں ہزاروں انسانوں کا لہو ہے، جس کی مٹی میں پیار ہے، جو جوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آپ کے اس بیان سے قبل بانی متحدہ نے بھی ایسا ہی ایک بیان دیا تھا، جس کے بعد ایم کیو ایم کے اندر شکست و ریخت آپ نے خود بھی ملاحظہ کی، تقاریر پر پابندیوں کے آپ بھی شاہد ہیں۔ تو کیا آپ کی بھی یہی خواہش ہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست کی آڑ میں قوم کو تقسیم کرنے والی سیاسی قیادت اور سیاستدانوں کا عوامی سطح پر بائیکاٹ کیا جائے۔ محبت کے پھولوں کو نفرت کے کانٹوں سے نقصان پہنچانے والوں کا راستہ روکا جائے۔ اور سب سے اہم بات چیئرمین تحریک انصاف کے ایک اور یوٹرن کا انتظار کیا جائے تاکہ ان کے پیروکاروں کو دفاع کےلیے کانٹینٹ دستیاب ہوسکے۔ ان کے کی بورڈ واریئرز کو دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے کا موقع مل سکے۔ لیکن محض بیانات اور سیاق و سباق سے ہٹ کر گفتگو کو بنیاد بنا کر سیاسی قیادت کی کردارکشی کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
بشکریہ: شفقنا اردو
واپس کریں