دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
No image جو لباس کبھی طوائف پہننے سے حیا کرتی تھی ، آپ کے تعلیمی اداروں میں شریف گھروں کی لڑکیاں پہنتی ہیں ۔اور والد صاحب اس لباس میں خود بیٹی کو یونیورسٹی چھوڑ کر آتے ہیں ۔ اور یہ حالت امیر خاندانوں کی نہیں مڈل کلاسیوں کی بھی ہوئی پڑی ہے ۔ کیونکہ عام دیکھنے کو ملتا ہے کہ بالکل آبرو باختگی کا لباس پہنے بیٹی باپ کے پیچھے موٹر سائیکل پر بیٹھی ہوتی ہے اور باپ مطمئن بے غیرت بنا بیٹھا ہوتا ہے ۔
اگلے روز کسی عزیز کے ہاں گیا تو وہاں آواز بند ٹی وی چل رہا تھا ، ٹین سپورٹس پر لمبا وقفہ تھا اور مسلسل اشتہار چل رہے تھے اور ادھ ننگی لڑکیاں مسلسل دکھائی جا رہی تھیں ۔۔۔
اور گھرانہ مکمل باپردہ اور نمازی بلکہ مسجد کے نمازی ۔۔سبب کیا ہوا ؟ کیوں یہ سب آسان ہو گیا ؟ کیوں عام سی گھریلو عورتیں جو واقعتاً آج بھی کردار میں شریف ہیں لیکن ان شریف عورتوں کے لباس بھی طوائفوں کو شرما رہے ہیں ؟؟؟
نیا رواج نصف پنڈلی تک ننگی ٹانگیں بنیادی طور پر سکرٹ اور پھر منی سکرٹ کی طرف سفر ہے ۔ اور برائی کی طرف سفر کرنے کا عمل مرحلہ وار ہوتا ہے ۔۔
پہلا مرحلہ کی برائی برائی محسوس نہیں ہوتی ، یعنی نارمل ہو جاتی ہے ۔۔ آٹھ دس برس پہلے صرف ننگے ٹخنے رکھنے کا رواج چلا ۔۔ تو سنجیدہ لوگ بھی جگتیں کرتے اور سب نارمل سا ہوتا نظر آیا ۔۔۔ اب برس گزرا کہ ٹانگیں ننگی ہونا شروع ہوئیں تو حالت یہ ہے کہ اب آہستہ آہستہ نارمل ہونا شروع ہو رہا ہے ۔۔۔
بیسیوں بار ریل اور ٹک ٹاک کی ویڈیوز سامنے آتی ہیں ، کوشش ہوتی ہے کہ بچا جائے لیکن آپ سٹڈی واسطے سمجھ لیجیے کہ میں نے کچھ ویڈیوز خود دیکھیں اور اس مقصد کے تحت کہ ان کے بیک گراؤنڈ اور پیچھے موجود ماحول کا مطالعہ کیا جائے ۔۔۔ مجھے حیرت رہی کہ بہت سی خواتین اور لڑکیاں عام شریف گھرانوں کی تھیں ۔۔۔ جب اُنھیں طوائف کہا جائے تو بہت سے لوگ تڑپ تڑپ جاتے ہیں ۔۔
کیا طوائف کوئی برادری اور نسب سے بنتی ہے ؟
ہرگز نہیں ۔۔۔۔ بہت شریف گھرانے کی عورت جب روشن خیال ہوتی ہے اور اپنا بدن بطورِ ٹک ٹاکر دکھانے واسطے پیش کرتی ہے تو بصد معذرت وہ طوائف ہو چکی ہوتی ہے ۔۔ اور " شکاری" انہیں تسلی دینے کے لیے فنکار کہہ دیتے ہیں اور وہ بےچاری اس غلط فہمی کا شکار ہو کر ان شکروں کی شکار ہو جاتی ہے اور وہ اس عورت کو نرا شکار سمجھتے ہیں ۔۔
ابھی ٹویٹر پر ایک ٹکٹاکر خاتون کے باپ کا انٹرویو سن رہا تھا جو بار بار اپنی بیٹی کے " کام " کو ماشاءاللہ اور الحمدللہ کے سابقوں لاحقوں کے ساتھ بیان کر رہا تھا اور ساتھ کروڑوں روپے کا ذکر کر رہا تھا جو اس کی بیٹی " ویڈیو " بنا کر کماتی ہے ۔
یہ سب نارمل کیوں ہوا ؟
اس کا سب سے بڑا سبب وہ ٹی وی ہے جو ہر وقت چلتا ہے ، اس میں ہر وقت اشتہار اور ڈراموں میں صورت طوائفیں ناچتی ہیں ۔۔ اس بیچ پاس سے آواز آتی ہے " اللہ اکبر اللہ اکبر" اور ابا جی ٹی وی کے ساتھ والے ریک سے ٹوپی سر پر پہن کر مسجد کو چلے جاتے ہیں ۔۔ اور آ کر پھر خبریں دیکھنا شروع ہو جاتے ہیں ۔۔ اور طوائفیں ساتھ ساتھ ناچتی رہتی ہیں ۔۔۔ کہنے کو اشتہار ہیں لیکن " سلیولیس " کپڑوں ، آدھ ننگی ٹانگوں ، بےتحاشا میوزک کے ساتھ مسلسل ناچ گانے نے آہستہ آہستہ برائی کو برائی نہ رہنے دیا۔
سوشل میڈیا اور ٹک ٹاک کی صورت ہر ہاتھ میں بازار حسن پورا آپ کی جیب میں ناچ رہا ہے ، فیس بک پر عورتیں مردوں کے اور مرد عورتوں کے پیچھے ان باکس میں گھسے پڑے ہیں ۔۔ بالکل ویسے جیسے نیم برہنہ بیوی کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر خود آگے والی کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ۔ باتیں کچھ تلخ ترش ہیں ، لیکن خلافِ حقیقت تو نہیں ۔۔۔
واپس کریں