دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایک نسل کو تو قربانی دینی ہو گی
No image آج ماں کے لیے ایک کٹھن دن تھا ماں چند دن پہلے ہی دھوم دھام سے بہو بیاہ کے لائی تھی۔شادی کے ہنگامے سرد پڑ چکے تھے نئے نویلے دلہا دلہن کی دعوتوں کے سلسلے بھی تھم گئے تھے۔ زندگی کافی حد تک اپنی ڈگر پہ واپس آگئی تھی۔ بیٹے نے چھٹیوں کے بعد دوبارہ اپنا آفس جوائن کر لیا تھا آج اسے شادی کے بعد پہلی تنخواہ ملنی تھی۔
ماں کو وہ دن اچھی طرح یاد تھے جب وہ نئی نویلی دلہن تھی اس کی شادی کو چند دن ہوئے تھے اس کے شوہر کو شادی کے بعد پہلی تنخواہ ملی تو شوہر نے وہ ساری تنخواہ اپنی ماں کے ہاتھ پہ رکھ دی۔
ماں نے وہ ساری تنخواہ گھر کے خرچے میں لگا دی اسے محسوس تو ہوا کہ اسے ایک روپے بھی نہیں دیا گیا لیکن وہ خاموش رہی کیونکہ ایک تو نئی نئی شادی ہوئی تھی اس کی ضرورت کی ہر چیز اس کے پاس موجود تھی اور ابھی تو سلامی کے کچھ پیسے بھی اس کے پاس موجود تھے۔ زیادہ رقم تو اس کے شوہر نے اس سے لے کے اپنی ماں کو شادی پہ اٹھایا قرض اتارنے کے لیے دے دی تھی۔ مگر پھر بھی ابھی کچھ نا کچھ روپے موجود تھے۔
موسم بدلا تو اس کو سیزن کے نئے کپڑوں کی ضرورت پڑی اس نے شوہر سے کہا تو اس نے خالی جیب دیکھا دی کہ میں تو سب تنخواہ ماں کے ہاتھ پہ رکھتا ہوں اپنے خرچے کے لیے بھی روز ماں سے پیسے لے کے جاتا ہوں ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ تم بھی ماں سے پیسے مانگ لو۔ اس کی خود داری نے ساس سے پیسے مانگنا گوارا نا کیا۔
اگلے ماہ پھر یہی ہوا ساری تنخواہ ماں کے ہاتھ میں۔ گرمی شدت اختیار کر چکی تھی اور اس کے پاس پہننے کو لان کے سوٹ نہیں تھے وہ میکے سے اپنے شادی سے پہلے کے سوٹ اٹھا لائی۔ عید آئی تو ساس نے ایک جوڑا لان کا دلوا دیا ایک جوڑا میکے سے آگیا اور سیزن گزر گیا۔
بچے ہوئے تب بھی یہی حالات، اسے میکے بھیج دیا جاتا شوہر کوئی خرچہ ہاتھ پہ نا رکھتا وہ بچے کو ملنے والے پیسوں سے تھوڑا تھوڑا کر کے خرچہ کرتی رہتی۔
کچھ عرصے بعد اس کی اپنے شوہر سے خرچے پہ شدید جھڑپ ہوئی آخر کب تک وہ خالی ہاتھ ساس کا منہ دیکھ کے گزارا کرتی اس جھڑپ کے نتیجے میں ساس نے مہینے کے سو روپے اسے دینے شروع کر دیے۔ جس میں اس کا اپنا گزارا مشکل سے ہوتا۔ بچے کے لیے اسے ناپ تول کے دودھ ملتا۔
ساس نے بیٹیوں اور بہو کے درمیان کچن کے کام بانٹ دیے تھے وہ اپنے حصے کا کام کرتی اور کمرے میں آجاتی گھر کے کسی معاملے میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں تھا سارے فیصلے اس کی ساس اور ان کی بیٹیاں کرتیں۔ سسر صبح آٹھ کے مسجد جاتے اور مغرب کے بعد آتے۔
بچے بڑے ہوتے گئے انکے خرچے بڑھتے گئے ساس کھینچ کھینچ کے سو باتیں سنا کے بچوں کی خرچے کے پیسے دیتی۔کچھ عرصہ میں اس کے شوہر کے حالات بہت اچھے ہو گئے تنخواہ کافی زیادہ ہو گئی گھر میں خوشحالی آئی تو شوہر نے چند ہزار بیوی کے ہاتھ پہ بھی رکھنے شروع کر دیے۔
ساتھ ہی ساس نے خرچے سے مکمل ہاتھ کھینچ لیا اب اسے اپنے بچوں کے دودھ تک کے پیسے خود سے دینے پڑتے۔ تھوڑے سے پیسوں سے سر پیر ڈھانپتے زندگی گزر ہی رہی تھی۔
گھر کے معاملات اور کچن میں ابھی بھی اس کا کوئی عمل دخل نہیں تھا نا اس سے پکاتے ہوئے کچھ پوچھا جاتا نا اسے اپنا پکایا ہوا سالن خود نکلالنے کی اجازت تھی نا وہ ساس کی مرضی کے بغیر اپنے بچوں کو اپنے ہی پیسوں سے کچھ پکا کے دے سکتی تھی ایک بار بچوں کی فرمائش پہ اس نے آلو اپنے پیسوں سے منگوا کے بچوں کو چپس فرائی کر دیے تو اس کی ساس نے پورا مہینہ آئل کی قیمت بتا بتا کے اس کی ناک میں دم کیے رکھا۔

اس کے بچے پڑھائی میں اچھے تھے جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے اس کی آنکھوں میں خواب سجتے گئے وہ جاگتے میں خواب دیکھتی کہ اس کے بچے پڑھ لکھ کے اچھی نوکریاں کر رہے ھیں کما رہے ہیں اس کے ہاتھ پہ پیسے رکھ رہے ھیں اور وہ اپنی مرضی سے کھانا پکا رہی ہے گھر کا خرچہ چلا رہی ھے۔
یہ خواب اس کی جائے پناہ تھے جب جب اس کا دل اس گھر میں اپنی بے حیثیتی پہ دکھتا وہ فوراً خواب اوڑھ لیتی دل دل میں سوچتی میرا وقت بھی آئے گا میرے بچے بڑے ہوں گے تو میری حکمرانی ہو گی وہ دن بھی آئے گا میں ساری تنخواہ لوں گی اور اپنی مرضی سے خرچ کروں گی۔
وقت کا کام گزرنا ھے سو گزر گیا ساس سوئے عدم سدھاریں نندیں اپنے گھر کی ہو گئیں وقار کی جاب لگتے ہی اس نے اس کے لیے لڑکی ڈھونڈنی شروع کر دی جلد ہی اسے ایک لڑکی پسند آگئی بیٹے کی جاب شروع ہونے کے ایک سال کے اندر وہ بہو بیاہ لائی۔
آج اس کے بیٹے کو شادی کے بعد پہلی تنخواہ ملنی تھی اس کے شوہر اپنے والد کی طرح ریٹائرمنٹ کے بعد مسجد کو پیارے ہو چکے تھے۔
اس کو بے چینی تھی بیٹا اپنی تنخواہ کسے دیتا ھے اسے اپنی ساری محرومیاں یاد آنے لگیں۔ بیٹا گھر آیا اس نے ساری تنخواہ لا کے اپنی ماں کو دے دی۔ اس نے زرا کے زرا نظر اٹھا کے بہو کی طرف دیکھا وہ کونے میں کھڑی مسکرا کے اسے دیکھ رہی تھی اسے پچیس سال پہلے کا دن یاد آیا کہ تب وہ بھی یونہی مسکرائی تھی مگر اس کا دل ڈوب گیا تھا ۔
آج اس کے امتحان کا دن تھا ایک طرف ساری عمر کی محرومیاں تھیں اپنی مرضی سے کھانا تک نا پکا اور کھا سکنے کا دکھ تھا گھر کو چلانے میں اپنی خواہشات کو دبانے کے دن اس کو ازبر تھے تو دوسری طرف اس کی چار دن کی بیاہتا بہو تھی۔
اس کا وقت آچکا تھا بہو کو اپنے وقت کے لیے ایک طویل انتظار کرنا تھا۔
اس نے ایک دم فیصلہ کیا، بیٹے کی تنخواہ میں سے اپنے اور اپنے شوہر کی دوائیوں اور ضرورت کے لیے کچھ پیسے الگ کرکے اس نے ساری تنخواہ بہو کے ہاتھ میں رکھ دی۔
کہ آج سے تم اس گھر کا خرچہ چلاو گی میرا مشورہ شامل ہو گا ہم مل جل کے فیصلے کریں گے مگر پیسہ تم اپنے ہاتھ میں رکھو گی گھر کا بجٹ تم خود بناو گی میں تمہاری ہر طرح مدد کروں گی۔
اس کا دل اس کو دہائیاں دے رہا تھا اسے بتا رہا تھا کہ اس اقتدار کے لیے تم نے اپنی زندگی کے پچیس سنہرے سال انتظار کیا اور آج یہی اقتدار تم نے پچیس دن کی بہو کو سونپ دیا۔
تم نے کیا پایا نا اقتدار تب تمہارا تھا نا آج تمہارا۔
مگر اس کا ضمیر مطمئن تھا اسے معلوم تھا کسی ایک نسل کو تو یہ قربانی دینی ہی ہوگی پیچھے ہٹنا ہو گا آنے والی کو راہ دینی ہو گی پہلے دن سے اپنانا ہو گا اسے احساس ملکیت دیں گے گھر کا فرد سمجھیں گے تو وہ پھلے پھولے گی اور وہ خوش تھی کہ اس قربانی کا اعزاز اسے ملا اسے اس قربانی پہ کوئی پشیمانی نہیں تھی۔
بہو نے تشکر اور محبت سے اپنی ساس کو دیکھا۔ دونوں ساس بہوئیں مشاورت اور اخلاص سے گھر چلانے لگیں۔
واپس کریں