دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جوائنٹ فیملی سسٹم اور ایک ساس کا کردار
No image میرے سسر اور انکے چار بھائی سب ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔ سب کے پورشن تو الگ ہیں لیکن entrance سب کی ایک ہی ہے۔ میری ساس شادی ہو کر اس ہی گھر میں آئیں اور میں انکی پہلی بہو بھی۔ یعنی 31 سال سے سب بھائی ساتھ رہتے ہیں اور کوئی ایک بھائی بھی الگ نہیں ہوا۔
میری شادی کو 5 سال ہو گئے ہیں اور دو بچے ہیں۔ ان سالوں میں، میں نے جو رشتوں کو نبھانے کے لئے اپنی ساس کا کردار دیکھا، وہ آج ذکر کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔ شاید جو اجکل گھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، اسکے لئے کوئی سبق حاصل ہو سکے۔
اگر میں اپنے سسر سے شروع کروں، تو میرے سسر دل کے بہت اچھے انسان ہیں لیکن جب وہ بہت تھک جائیں یا کسی ٹینشن میں ہوں تو انکا غصہ بہت تیز ہوتا ہے۔ وہ غصہ میں کبھی کبھی میری ساس کو ایسی باتیں بھی کہ جاتے ہیں جو اگر میرے شوھر مجھ سے کہیں تو میں کبھی بھی برداشت نہ کروں۔ مگر میری ساس نے انکو کبھی بھی shut up call نہیں دی۔ جب میرے سسر تھوڑا ٹھنڈے ہوئے تب انہوں نے انکو انکی غلطی کا ضرور احساس دلایا لیکن غصہ کے وقت کچھ نہیں کہا۔
میری ایک پھوپھیہ ساس(آنٹی) کی فالج کے سبب شادی نہیں ہوئی تھی۔ وہ بھی یہیں رہتی تھیں۔ انکو وہم ہوتا تھا تو انکی سب بھابھیوں نے انکی ذمہداری بانٹی ہوئی تھی۔ وہ بھی دل کی بہت اچھی خاتون تھیں(اللہ انکو جنت نصیب کرے)، لیکن کبھی کبھی انکو بھی بے بات کے غصہ آ جایا کرتا تھا۔ میری ساس دن میں دو دفعہ دو منزلہ نیچے اتر کے انکو وضو کرانے جایا کرتی تھیں۔ ایک آدھ دفعہ انکو پہنچنے میں دیر ہوئی تو انکو آنٹی کا غصہ دیکھنے کو ملا۔ مجھے بہت برا لگتا تھا اگر کبھی انہوں نے میری ساس پہ غصہ کیا، لیکن میری ساس نے پلٹ کر انکو کبھی جواب نہیں دیا۔ بلکہ مجھ سے کہتی تھیں کہ مجھے آنٹی کی ایک بات بہت اچھی لگتی ہے، "غصہ بےشک کرتی ہیں، لیکن فورا سہی بھی ہو جاتی ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ " پچھلے سال آنٹی کا انتقال ہوگیا اور میری ساس جب بھی کوئی ایسی چیز پکاتی ہیں جو آنٹی کو پسند ہوتی تو کہتی ہیں "آنٹی اتنا حلق میں اٹکتی ہیں، اتنا خوش ہوتی تھیں جب انکو یہ بنا کر بھیجتے تھے".
میری ایک تیا ساس کی شادی اور میری ساس کی شادی ساتھ ہوئی تھی۔ دونوں کے بچے بھی ساتھ ساتھ ہوئے۔ میری ساس کے اوپر تلے کے تین بیٹے اور میری تیا ساس کی اوپر تلے کی تین بیٹیاں ہوئیں۔ میرے شوھر کہتے ہیں کہ "میں نے تائی کی بیٹیوں کی خوب دھنائی کی، اور تائی نے بھی پھر مجھے کبھی کبھی سزا دی"، لیکن بچوں کی لڑائی کی وجہ سے کبھی بھی دونوں دیورانی جیٹھانی آپس میں نہ لڑے۔
میری ایک اور تیا ساس کے بچوں سے میری ساس کے چھوٹے بچوں کی لڑائیاں ہوئیں۔ بقول میری نند کے،" تائی نے اوپر آ کے بھی میری ساس کو کبھی کبھی بچوں کی وجہ سے باتیں سنائیں۔ ہم لڑتے تھے امی سے کہ ہمارا قصور نہیں تھا، آپ نے انکو جواب کیوں نہیں دیا۔ لیکن امی ہمیں ہی ہر دفعہ ڈانٹ ڈپٹ کر کے خاموش کرا دیا کرتی تھیں۔ کبھی ہم نے خود انکو جواب دیا تو اس پہ بھی امی سے بہت ڈانٹ کھائی کہ جواب کیوں دیا۔" آج یہی تائی میرے بیٹے کو اپنے یہاں بلا کر اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتی ہیں۔ میں ایک دن گھر میں اکیلی اپنے بیٹے کے ساتھ تھی اور کھانا پکا رہی تھی۔ میرا بیٹا اس ہی چولہے میں تنکا ڈال کے آگ بھڑکا رہا تھا اور میں اسکی وجہ سے کام نہیں نمٹا پا رہی تھی۔ انہی تائی نے اپنے بیٹے کو اوپر بھیج کہ میرے بیٹے کو نیچے بلوایا، اور اسکو سنبھالا۔ جب تک میں نے جلدی جلدی اپنے کام نہیں نمٹا لئے انھوں نے اسکو اوپر واپس نہ بھیجا۔
اب اگر میں اپنی بات کروں تو میری ساس نے ہمیشہ سے میرا بہت خیال رکھا۔ ان پانچ سالوں میں دو چار بار ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے مجھ پر ہلکی پھلکی سرزنش کی ہو۔ کبھی بھی مجھ سے سخت ناراض نہیں ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں،" بیٹا میں کسی سے ناراض نہیں ہوتی، مجھے لگتا ہے ناراض ہونا سامنے والے کو اذیت دینا ہوتا ہے۔"
میری میرے شوہر سے جب نوک جھوک ہوتی، وہ ہمیشہ جس کی غلطی ہوتی اسکو سمجھاتیں۔ مجھے بھی ماں بن کر سمجھاتیں۔ اور میرے شوھر کی بھی بے جا طرف داری نھیں کرتیں۔ مجھے اپنی ساس سے بے پناہ محبت ہے اسلئے کہ میں نے انکی زبان سے کبھی ایسے الفاظ نہیں سنے جو دل میں ٹیس بن کر چبھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ " بیٹا! رشتوں سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی، رشتہ بچانے کے لئے جو قربانی دے سکو، دے دو۔ اگر تمھاری ایک قربانی سے تمھارا گھر بس سکتا ہے، تو گھر توڑنے سے بہتر ہے وہ قربانی دے دو۔" میں ان سے کہتی ہوں میں آپ کی طرح برداشت نہیں کر سکتی، میں اتنا چپ نہیں رہ سکتی۔ تو وہ کہتی ہیں "بیٹا جس وقت سامنے والا غصہ میں ہو صرف اس وقت لب سی لو، بعد میں اپنی ساری باتیں منوا لو۔" میں کہتی ہوں اس طرح اپنا آپ ہی مرتا ہے، سامنے والے پہ کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تو وہ کہتیں ہیں کہ کیا تمہیں اللہ کی بات پر یقین نہیں؟ "نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی۔ برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست ۔ اور یہ بات انہیں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پا سکتا۔" وہ یہ آیت سناتی ہیں اور مجھے لگتا ہے میری ساس واقعی بہت نصیب والی ہیں۔ دنیا میں بےشک دیکھنے میں ایسا ہی لگتا ہے جیسے انکی اپنی کوئی زندگی نہیں ہے، لیکن آخرت میں وہ ضرور بڑا رتبہ پائیں گی۔(انشاللہ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی : اللہ کے رسول ! میرے ( بعض ) رشتہ دار ہیں ، میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں اور وہ مجھ سے تعلق توڑتے ہیں ، میں ان کے ساتھ نیکی کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں ، میں بردباری کے ساتھ ان سے درگزر کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت کا سلوک کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا :’’ اگر تم ایسے ہی ہو جیسے تم نے کہا ہے تو تم ان کو جلتی راکھ کھلا رہے ہو اور جب تک تم اس روش پر رہو گے ، ان کے مقابلے میں اللہ کی طرف سے ہمیشہ ایک مددگار تمہارے ساتھ رہے گا ۔ (صحیح مسلم)
آپ کو یہ باتیں پڑھ کر لگ رہا ہوگا کہ میری ساس بے حس ہیں، انکی کوئی عزت نفس نہیں۔ مجھے بھی ایسا ہی لگتا تھا لیکن ایک دن میں نے اپنی ساس کو روتے ہوئے دیکھا اور وہ میرے سسر سے کہ رہی تھیں کہ میں تھک گئی ہوں سب کا مزاج دیکھ دیکھ کے۔ اس لمحے میرا دل چاہا کہ اسکو فورا جا کے دو تھپڑ لگاوں جس نے بھی میری ساس کو آنسو دئے۔ اور اس وقت ہی مجھے احساس ہوا کہ میری ساس کا بھی دل ہے اور وہ دل دکھتا بھی ہے۔ لیکن میری ساس دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں، جلدی معاف کر دیتی ہیں۔ میں نے اب تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو میری ساس سے نفرت کرتا ہو۔ سب ان سے دل سے محبت کرتے ہیں۔ اور مجھے لگتا اللہ بھی ان سے بہت محبت کرتا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے۔ تم بھی اس سے محبت رکھو، چنانچہ جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں۔ پھر جبرائیل علیہ السلام تمام اہل آسمان کو پکار دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت رکھتا ہے۔ اس لیے تم سب لوگ اس سے محبت رکھو، چنانچہ تمام آسمان والے اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد روئے زمین والے بھی اس کو مقبول سمجھتے ہیں۔( صحیح بخآری)
میں اپنی شادی کے بعد ہر عید اور بکرا عید پہ اپنی ساس کے لئے جوڑا ضرور لاتی ہوں۔ اور وہ ہر دفعہ مجھے ڈانٹتی تھیں کہ میرے لئے کیوں لاتی ہو، اپنے بنایا کرو ناں۔۔ اب کی دفعہ میرے آنسو نکل گئے اس بات پر، میں نے کہا امی کبھی تو خوش دلی سے accept کیا کریں۔ اور روتے ہوئے کہا کہ آئندہ آپکا جوڑا کوئی نہیں بنائے گا ناں تو آپ کو یاد آئے گا۔ تو انہوں نے اتنے پیار سے مجھ سے کہا کہ کیوں؟ آئندہ تم نہیں لاؤ گی کیا؟ اور میں اس ہی وقت ہنس دی۔
میرا دل چاہتا ہے میں اپنی ساس کو گلے لگاؤں اور بہت پیار کروں، لیکن بہو ہوں تو تھوڑی شرم آتی ہے، کیونکہ وہ میری ہر خوشی میں خوش ہوتی ہیں اور میرے غم پہ بھی میرے ساتھ ہوتی ہیں۔ میں کوشش کرتی ہوں انکو کم سے کم میری ذات سے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ میں انکے کہے بغیر انکے کام کر دیتی ہوں۔ اور انکو خوش رکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ یہ باتیں بتانے کا مقصد اپنی تعریف کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ قربانیوں کا صلہ اللہ جلد یا بدیر کسی نہ کسی ذریعے سے ضرور دلواتا ہے، چاہے وہ آپ نوٹ کر سکیں یا نہیں۔ جیسے اللہ میری ساس کو میرے ذریعے سے کبھی کبھی سکھ پہنچاتا ہے، پتہ نہیں انہوں نے یہ نوٹ کیا ہو یا نہیں۔
میں نے جو باتیں بھی یہاں لکھیں، وہ سب سچ ہیں اور آج کے دور کی زندہ مثال ہے۔ میری ساس کی جو شخصیت ہے، ایسی شخصیت بنانا بہت بہت مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ وہ بھی آج کی ہی دور کی خاتون ہیں ۔ اور وہ انشاللہ اپنی ان نیکیوں کا اجر ضرور پائیں گی۔ لیکن یاد رہے کہ صلہ پانے کے لئے وقت لگتا ہے۔۔۔ قربانی لگتی ہے۔۔ صبر اور حوصلہ لگتا ہے۔۔۔
واپس کریں